پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)کے ساتویں ایڈیشن کا آغاز ہو گیا ہے۔ ایونٹ کا افتتاحی میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں دفاعی چیمپئن ملتان سلطانز اور کراچی کنگز کی ٹیموں کے درمیان ہوا جس میں ملتان سلطان نے سات وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔
پی ایس ایل کا ساتواں ایڈیشن جہاں نئے اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا، وہیں چند انٹرنیشنل کرکٹرز کے لیے بھی یہ گزشتہ سیزن کی نسبت ذرا مختلف ہوگا۔
ان انٹرنیشنل کرکٹرز میں پاکستانی آل راؤنڈرز شاہد آفریدی ، سہیل تنویر اور افتخار احمد کے ساتھ ساتھ کچھ بیرونِ ملک سے آنے والے کھلاڑی بھی شامل ہوں گے۔
اس سال پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)نے تمام فرنچائزز پر یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ اپنے پول میں موجود کھلاڑیوں میں سے صرف آٹھ کھلاڑی ہی برقرار رکھ سکتی ہیں اور باقی کھلاڑیوں کوریلیز کردیں تاکہ دوسری ٹیمیں ان کے ٹیلنٹ سے مستفید ہوسکیں۔ اسی وجہ سے کئی ٹیموں نے ایسے کھلاڑیوں کو ریلیز کیا جو کافی عرصے سے ان کے ساتھ تھے۔
ان ریلیز ہونے والے کھلاڑیوں میں زیادہ تر کو سرفراز احمد کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پِک کیا تھا۔ کچھ کو دیگر ٹیموں نے اپنے کیمپ میں بلا کر ٹرافی جیتنے کےامکانات کو روشن رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کھلاڑی کون ہیں اور انہیں کس ٹیم نے کون سے ٹیم سے منتخب کیا۔ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ شاہد آفریدی ( ملتان سلطانز سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز)
سابق پاکستانی کپتان شاہد آفریدی کے کریئر کا یہ آخری پی ایس ایل ایڈیشن ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل وہ پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں پشاور زلمی کےکپتان تھے۔ سیزن ٹو میں انہوں نے بطور کھلاڑی شرکت کی تھی، جس میں ڈیرن سیمی کی قیادت میں زلمی کی ٹیم نے ایونٹ جیتا۔
سیزن تھری میں انہوں نے کراچی کنگز کی نمائندگی کی جبکہ چوتھے، پانچویں اور چھٹے سیزن میں ملتان سلطانز کی نمائندگی کی۔گزشتہ سیزن میں جب ملتان سلطانز نے ٹائٹل جیتا تو شاہد آفریدی اسکواڈ میں شامل تھے۔ تاہم انجری کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں ہونے والے میچز میں شرکت کرنے سے محروم رہے تھے۔
اس بار وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے لیے ایکشن میں نظر آئیں گے اور ان کی کوشش ہے کہ سرفراز احمد کی ٹیم کے لیے ایسی پرفارمنس دیں کہ وہ ایک بار پھر ایونٹ کی چیمپئن بن جائے۔
2۔ جیمز ونس (ملتان سلطانز سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز)
گزشتہ تین سیزن سے ملتان سلطانز کی نمائندگی کرنے والے انگلش کھلاڑی جیمز ونس اس بار اپنے پرانے ملتان سلطانز کے ساتھی شاہد آفریدی کی طرح ٹیم بدل کر نئی فرنچائز کا حصہ بنے ہیں۔
جیمز ونس نے گزشتہ سیزن میں ملتان سلطانز کی جانب سے 5 میچز کھیلے تھے جس میں انہوں نے 174 رنز اسکور کیے تھے۔ لیکن شاہد آفریدی کی طرح وہ بھی یو اے ای لیگ میں ملتان سلطانز کا حصہ نہیں تھے۔ اس بار وہ سرفراز احمد کی قیادت میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے ایکشن میں نظر آئیں گے۔
3۔ شمرون ہیٹ مائیر (ملتان سلطانز سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز)
شمرون ہیٹ مائر کا شمار ویسٹ انڈیزکے ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہیں مستقبل کا اسٹار کہا جاتا ہے۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں انہوں نے اپنی ٹیم کے لیے دو ہزار سے زائد رنز بنائے ہیں جس میں ون ڈے میں پانچ سینچریاں قابلِ ذکر ہیں۔
گزشتہ سیزن میں ملتان سلطانز نے انہیں متبادل کھلاڑی کے طور پر دو میچز کھلائے تھے جس میں ان کی کارکردگی واجبی سی تھی لیکن اس بار وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا حصہ ہیں۔
4۔نور احمد ( کراچی کنگز سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز)
ویسے تو افغانستان کے نور احمد نے گزشتہ سیزن میں صرف چار میچز میں کراچی کنگز کی نمائندگی کی تھی، لیکن بائیں ہاتھ سے رسٹ اسپین بالنگ کرنے والے اس کھلاڑی نے اپنی کارکردگی سے سب کو متاثر کیا تھا۔
پی ایس ایل 7 میں نور احمد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم میں ہوں گے۔ امکان ہے کہ پچھلے سیزن کے مقابلے میں انہیں میچز بھی زیادہ ملیں گے اور ان کی وکٹوں کی تعداد بھی گزشتہ سیزن کی چار وکٹوں سے زیادہ ہوگی۔
5۔سہیل تنویر( ملتان سلطانز سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز)
گزشتہ سیزن کی فاتح ٹیم ملتان سلطانز کے فاسٹ بالر سہیل تنویر اس بار ٹائٹل کے دفا ع میں ان کے ساتھ نہیں ہوں گے۔
سہیل تنویر کی گزشتہ برس کارکردگی کچھ خاص نہیں تھی۔ انہوں نے آٹھ میچز میں 48 کی اوسط سے صرف پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اسی وجہ سے انہیں ملتان نے ریلیز کردیا جو اب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے ایکشن میں نظر آئیں گے۔
یہاں یہ بات قابل ِذکر ہے کہ سہیل تنویر پہلی مرتبہ ٹیم تبدیل نہیں کررہے۔ انہیں اس کا وسیع تجربہ ہے۔ پہلے پی ایس ایل میں وہ کراچی کنگز کا حصہ تھے، دوسرے میں لاہور قلندرز کے ساتھ تھے جب کہ تیسرے میں ملتان سلطانز میں شامل تھے۔
پی ایس ایل سیون سے قبل بھی ایک بار وہ کوئٹہ کا حصہ 2019 میں رہ چکے ہیں، وہ بھی اُس سیزن میں جب انہوں نے ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔
سن2019 میں وہ ایونٹ کے ٹاپ فائیو وکٹ ٹیکرز میں شامل تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار واپس اپنی پرانی ٹیم میں جاکر 37 سالہ کھلاڑی کیا میچ وننگ فارم میں واپس آسکیں گے یا نہیں۔
6۔ افتخار احمد (اسلام آباد ہونائیٹڈ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز)
افتخار احمد کا شمار اس وقت پاکستان کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ گزشتہ سیزن میں وہ نہ صرف قائداعظم ٹرافی اور نیشنل ٹی ٹوئنٹی کا فائنل جیتنے والی ٹیم کے قائد تھے بلکہ بہترین کھلاڑی بھی۔ نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں تو وہ پلئیرآف دی ٹورنامنٹ بھی رہے۔
ایسا کھلاڑی جو کسی بھی مرحلے پر میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کا کسی بھی ٹیم میں ہونا اس ٹیم کے لیے کسی ایڈوانٹیج سے کم نہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اعظم خان کی جگہ افتخار احمد کو ٹیم میں لیا ہے۔
گزشتہ سیزن میں انہوں نے اسلام آباد کی جانب سے 9 اننگز میں 123 عشاریہ چار چھ کی اوسط سے 221 رنز بنائے تھے جس میں ایک نصف سینچری بھی شامل تھی۔ اوسط کے لحاظ سے وہ کولن منرو اور عثمان خواجہ سے پیچھے تھے۔
7۔ اعظم خان (کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے اسلام آباد یونائیٹڈ)
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان و ٹیسٹ کرکٹر معین خان کے صاحبزادے اعظم خان نے گزشتہ سال پاکستان کی وائٹ بال کرکٹ میں نمائندگی کی تھی۔
پی ایس ایل کے گزشتہ سیزن میں ان کی کارکردگی اچھی نہیں تھی اور انہوں نے کپتان سرفراز احمد کے برابر دس میچ کھیل کر صرف 17 عشاریہ چار کی اوسسط سے صرف 174 رنز بنائے تھے۔
شاید اسی لیے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اعظم خان کوٹریڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کی جگہ افتخار احمد کا انتخاب کیا۔ اعظم خان اس سیزن میں اسلام آباد کی جانب سے ایکشن میں نظر آئیں گے جہاں نہ تو کوچ ان کے والد ہیں، نہ ہی وہ اس کپتان کی قیادت میں کبھی کھیلے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اظہر محمود اور شاداب خان کی جوڑی اعظم خان کی جارح مزاجی سے فائدہ اٹھا سکتی ہے یا نہیں۔
8۔حسین طلعت (اسلام آباد یونائیٹڈ سے پشاور زلمی)
گزشتہ کئی سیزن سے اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کر نے والے کھلاڑی حسین طلعت کو 2021 کی کارکردگی پر ریلیز کیا گیا ہے۔جس میں انہوں نے 22 کی اوسط سے 156 رنز اور 11 میچوں میں صرف تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔
اس مایوس کن کارکردگی کے بعد انہیں پی ایس ایل ٹیم سے تو باہر کردیا گیا تھا لیکن انہوں نے کشمیر پریمئیر لیگ میں شاہد آفریدی کی راولاکوٹ ہاکس کی جانب سے کھیلتے ہوئے شاندار کھیل پیش کیا۔ جسے یقیناً پشاور زلمی کے سلیکٹرز نے نوٹ کیا ہوگا۔ انہوں نے ایونٹ میں نہ صرف 227 رنز بنائے تھے بلکہ چار کھلاڑیوں کو آؤٹ بھی کیا تھا۔
لیکن پی ایس ایل 7 میں وہ پشاور زلمی کی نمائندگی کریں گے۔ امکان ہے کہ ان کی کارکردگی میں وہی پختگی نظر آئے گی جس نے انہیں کشمیر پریمئیر لیگ کا پلئیر آف دی سیریز بنایا تھا۔