رسائی کے لنکس

ترکیہ انتخابات: کیا ایردوان اپنی 20 سالہ حکمرانی برقرار رکھ سکیں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترکیہ میں صدارتی اور عام انتخابات کے لیے اتوار کا دن مقرر ہے ۔ یہ انتخابات ترکیہ کی 100 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔

بعض تجزیوں اور سروے میں کہا جا رہا ہے کہ ان انتخابات میں 20 سالوں تک اقتدار میں رہنے والے رجب طیب ایردوان کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور موجودہ حکومت کی بڑھتی سخت گیر پالیسیاں رک سکتی ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یہ انتخابات نہ صرف یہ طے کریں کہ آٹھ کروڑ 50 لاکھ آبادی والے نیٹو رکن پر کون حکومت کرے گا بلکہ یہ بھی طے ہو گا کہ ایک ایسے ملک میں حکومت کیسے کی جائے گی جسے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔

اتوار کو ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ صبح آٹھ بجے شروع ہو گا جو کہ شام پانچ بجے تک جاری رہے گا۔

ترکیہ کے انتخابی قوانین کے مطابق رات نو بجے تک نتائج کے اعلان پر پابندی ہے جب کہ اتوار کو رات گئے تک اندازہ ہو جائے گا کہ آیا صدر کے انتخاب کے لیے رن آف ہو گا یا نہیں۔

اگر کوئی امیدوار 50 فی صد سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہوتا تو رواں ماہ ہی 28 مئی کو رن آف الیکشن ہو گا۔

اس کے علاوہ ان انتخابات کے ذریعے ترکیہ کی مستقبل میں خارجہ پالیسی کا بھی تعین ہو گا جس میں غیر متوقع تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔

انتخابات سے متعلق کیے جانے والے جائزے ایردوان کے اصل حریف کمال کلیج دار اولو جو کہ حزبِ اختلاف کی چھ جماعتوں کے سربراہ ہیں، انہیں معمولی برتری دلوا رہے ہیں۔

ترکیہ میں انتخابات کا انعقاد جنوب مشرقی حصے میں آنے والے شدید زلزلے کے تین ماہ بعد منعقد ہو رہا ہے جس میں 50 ہزار زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

متاثرہ علاقوں میں کی جانے والی سست حکومتی کوششوں پر تنقید کی گئی تھی۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس وجہ سے ووٹنگ سے متعلق لوگوں کے خیالات میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔

انتخابات میں مقابلہ پیپلز الائنس اور نیشنل الائنس کے درمیان ہو گا۔ پیپلز الائنس میں ایردوان کی قدامت پسند اے کے پارٹی کے علاوہ ایم ایچ پی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں جب کہ نیشنل الائنس میں حزبِ اختلاف کی چھ جماعتوں کے علاوہ کمال کلیچ داراوغلو کی سیکولر ری پبلکن پیپلز پارٹی بھی شامل ہے جس کی بنیاد ترکیہ کے بانی مصطفی کمام اتاترک نے رکھی تھی۔

خیال رہے کہ کردوں کی حامی جماعت ایچ ڈی پی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کا حصہ نہیں تاہم حالیہ برسوں میں ایردوان حکومت کی کردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے سبب وہ ایردوان کی مخالفت کر رہی ہے۔

صدارت کے لیے دوڑ میں ایچ ڈی پی نے اولو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ کرد عسکریت پسندوں سے روابط رکھنے پر ایچ ڈی پی پر پابندی لگانے کے لیے ایک اعلی پراسیکیوٹر کی طرف سے دائر کردہ عدالتی مقدمے کی وجہ سے ایچ ڈی پی گرین لیفٹ پارٹی کے نشان کے تحت پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ تاہم ایچ ڈی پی اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

انہتر سالہ ایردوان کو ایک اچھا خطیب اور بہتر انتخابی مہم چلانے والا رہنما سمجھا جاتا ہے۔

ایردوان جو کہ قدامت پرست ترکوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور 2016 میں کی جانے والی بغاوت کی کوشش اور بد عنوانی کے متعدد اسکینڈلز کے الزامات کے باوجود محفوظ رہے ہیں۔

تاہم اگر ترک عوام ایردوان کو ان انتخابات میں منتخب نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہو گی کہ ایردوان ترکوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہے جب کہ اکتوبر 2022 میں افراطِ زر 85 فی صد کی بلند ترین سطح پر رہا اور مقامی کرنسی لیرا کی قدر میں کمی دیکھی گئی۔

دوسری طرف 74 سالہ کمال کلیچ دار اولو جو کہ ایک سابق سول سرونٹ ہیں، نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایردوان کی انتظامیہ کی معاشی پالیسیاں ختم کر دیں گے۔

اولو کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایردوان کے 2017 کے ریفرنڈم کے ذریعے نافذ کردہ صدارتی نظام کو ختم کر کے ملک کو پارلیمانی نظام کی طرف واپس لے کر جائیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ عدلیہ کی خودمختاری جو کہ تنقید کرنے والوں کے مطابق ایردوان نے ختم کر دی تھی، واپس بحال کریں گے۔

ایردوان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران اداروں پر سخت کنٹرول رکھا ہوا تھا جب کہ لبرلز اور تنقید کرنے والوں کو ایک طرف کر دیا گیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کا اپنی 2022 کی رپورٹ میں کہنا تھا کہ ایردوان کی حکومت انسانی حقوق کی صورت حال کو دہائیوں پیچھے لے گئی ہے۔

دوسری طرف اگر اولو جیت جاتے ہیں تو انہیں حزب اختلاف کے اتحادیوں کو یکجا رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے جن میں قوم پرست، اسلام پسند، سیکولر اور لبرلز شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG