واشنگٹن —
بھارت کے شمالی علاقوں میں پھیلنے والی دماغی سوزش کی وبا شدت اختیار کرگئی ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ وبا سے سیکڑوں بچے متاثر ہوئے ہیں۔
مذکورہ وبائی مرض متاثرہ شخص میں مستقل معذوری کا سبب بن سکتا ہے جب کہ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی سوزش کی یہ وبا براعظم ایشیا میں ایک معمول کی موسمی بیماری ہے۔ ہر برس مون سون کے موسم میں پھیلنے والی اس وبا کے نتیجے میں صرف بھارت میں سیکڑوں بچے ہلاک یا مستقل ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل ازیں اس مرض کا اتنا شدید حملہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اور اس بار اگر حفاظتی انتظامات بہتر نہ بنائے گئے تو اس وبا کے دیگر ممالک تک پھیلنے کا بھی قوی امکان موجود ہے۔
وبا سے سب سےزیادہ متاثر بھارتی ریاست اتر پردیش ہوئی ہے جہاں صرف ایک دن میں مرض سے متاثرہ 550 افراد کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔
اتر پردیش کے شہر گورکھ پور کے سرکاری اسپتال کے ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر کے پی کشووہ کے مطابق زیادہ تر مریض بچے ہیں جن کے نہ صرف دماغوں پر ورم ہے بلکہ ان کی جلد، گردے، جگراور دل بھی مرض کی شدت سے متاثر ہوئے ہیں جس کے باعث یہ اعضائے ریئسہ صحیح طورپر اپنا کام انجام نہیں دے پارہے۔
اس وبا سے جہاں مریضوں کو پریشانیوں کا سامنا کرناپڑرہاہے وہاں ان کے رشتے داروں نے حکومت سے خصوصی علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک بین الاقوامی نجی خیراتی ادارے 'گیٹس فائونڈیشن' سے منسلک سینئر پروگرام آفیسر ڈاکٹر جولین جیکب سن کا کہنا ہے کہ 'جیپنیز انسیفلائٹس' نامی یہ وبا اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ جانوروں اور انسانوں کو یکساں متاثر کرتی ہے۔ ان کےبقول اس بیماری کا وائرس کچھ ایسا ہے کہ اسے کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔
ڈاکٹر جولین کے مطابق اس بیماری کے جراثیم بڑی مقدار میں پالتو اور جنگلی جانوروں خصوصاً سور اور ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب ہجرت کرنے والے پرندوں میں موجود ہوتے ہیں جو مچھر کے کاٹنے کے ذریعے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر جیکب سن کے بقول اس بیماری سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے لیکن علاج نہ ہونے کی صورت میں زیادہ امکان مریض کے ذہبی یا جسمانی معذور ہونے کا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وبا سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں اس سے بچائو کی ویکسین دے کر ان میں اس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کردی جائے۔
مذکورہ وبائی مرض متاثرہ شخص میں مستقل معذوری کا سبب بن سکتا ہے جب کہ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی سوزش کی یہ وبا براعظم ایشیا میں ایک معمول کی موسمی بیماری ہے۔ ہر برس مون سون کے موسم میں پھیلنے والی اس وبا کے نتیجے میں صرف بھارت میں سیکڑوں بچے ہلاک یا مستقل ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل ازیں اس مرض کا اتنا شدید حملہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اور اس بار اگر حفاظتی انتظامات بہتر نہ بنائے گئے تو اس وبا کے دیگر ممالک تک پھیلنے کا بھی قوی امکان موجود ہے۔
وبا سے سب سےزیادہ متاثر بھارتی ریاست اتر پردیش ہوئی ہے جہاں صرف ایک دن میں مرض سے متاثرہ 550 افراد کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔
اتر پردیش کے شہر گورکھ پور کے سرکاری اسپتال کے ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر کے پی کشووہ کے مطابق زیادہ تر مریض بچے ہیں جن کے نہ صرف دماغوں پر ورم ہے بلکہ ان کی جلد، گردے، جگراور دل بھی مرض کی شدت سے متاثر ہوئے ہیں جس کے باعث یہ اعضائے ریئسہ صحیح طورپر اپنا کام انجام نہیں دے پارہے۔
اس وبا سے جہاں مریضوں کو پریشانیوں کا سامنا کرناپڑرہاہے وہاں ان کے رشتے داروں نے حکومت سے خصوصی علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک بین الاقوامی نجی خیراتی ادارے 'گیٹس فائونڈیشن' سے منسلک سینئر پروگرام آفیسر ڈاکٹر جولین جیکب سن کا کہنا ہے کہ 'جیپنیز انسیفلائٹس' نامی یہ وبا اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ جانوروں اور انسانوں کو یکساں متاثر کرتی ہے۔ ان کےبقول اس بیماری کا وائرس کچھ ایسا ہے کہ اسے کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔
ڈاکٹر جولین کے مطابق اس بیماری کے جراثیم بڑی مقدار میں پالتو اور جنگلی جانوروں خصوصاً سور اور ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب ہجرت کرنے والے پرندوں میں موجود ہوتے ہیں جو مچھر کے کاٹنے کے ذریعے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر جیکب سن کے بقول اس بیماری سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے لیکن علاج نہ ہونے کی صورت میں زیادہ امکان مریض کے ذہبی یا جسمانی معذور ہونے کا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وبا سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں اس سے بچائو کی ویکسین دے کر ان میں اس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کردی جائے۔