پاکستانی فوج کے افسران کو خط لکھنے کے الزام میں ملٹری کورٹ سے پانچ سال قید کی سزا پانے والے میجر جنرل (ر) ظفرعسکری کے صاحبزادے حسن عسکری کو دو سال قید کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ حسن عسکری کو ملٹری کورٹ آف اپیل میں ان کی اپیل منظور ہونے پر رہا کیا گیا ہے۔
حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ" میرا ملک چھوڑ کر جانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت سی مشکلات ہیں لیکن میں پاکستان کے مستقبل سے ناامید نہیں ہوں۔ـ"
حسن عسکری نے اس گفتگو میں اپنے کیس کے حوالے سے بات کرنے سے احتراز کیا اور کہا کہ "میں اپنے گھر آکر بہت سکون محسوس کررہا ہوں، کوشش کررہا ہوں کہ بالکل پرسکون ہوجاؤں اور ماضی کو بھلا کر صرف مستقبل پر نظر رکھوں۔"
انہوں نے کہا کہ "میں جہاں بھی چلا جاؤں میرا دل پاکستانی ہے، پاکستان سے دور جانا بہت مشکل ہے۔ بیرون ملک بہت سے دوست احباب ہیں، ان سے ملنے جاسکتا ہوں۔"
مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں حسن عسکری نے کہا کہ میں ماضی میں نوکری کر رہا تھا اور اخبارات میں بھی لکھتا رہا ہوں لیکن ابھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا کہ کیا کرنا ہے ۔
حسن عسکری نے اپنی رہائی کے حوالے سے اپنی بہن زہرا عسکری کو کریڈٹ دیتے ہوئے کہا کہ جیل میں مجھے ہر ہفتے دو خط آتے تھے جس سے مجھے گھر کے بارے میں مکمل بات ہوا کرتی تھی، اس نے عدالتوں میں میرے لیے بہت زیادہ کوشش کی جس کی وجہ سے آج میں آزاد ہوں۔
یاد رہے کہ فوج کے اعلیٰ حکام کو خطوط لکھنے کے معاملے پر میجر جنرل (ر) ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری کو دو اکتوبر 2020 کو حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر بغاوت اور فوجی افسران کو اپنی کمانڈ کے خلاف اُکسانے جیسے الزامات تھے۔
حسن عسکری نے پاکستانی فوج کے مختلف لیفٹننٹ جنرلز اور میجر جنرلز کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر اعتراض اٹھایا تھا اور اسے ملکی مفاد کے منافی قرار دیا تھا۔
گزاری گئی قید سزا، باقی ختم
اسد جمال ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹ میں چلنے والے کیسز میں عام طور پر وجوہات نہیں بتائی جاتیں۔
اُن کے بقول سویلینز کے کیسز میں کوئی بھی دستاویز نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کورٹ آف اپیل نے ان کی پانچ سالہ سزا میں سے جتنا وقت گزر چکا اسے سزا تصور کیا اور باقی سزا ختم کر دی گئی ہے۔ اس کا کوئی تحریری حکم نامہ نہیں دیا گیا۔
اسد جمال کا کہنا تھا کہ عام طور پر فوجی عدالتوں میں فیصلوں کے بعد کوئی کاپی نہیں دی جاتی کہ ان وجوہات کا علم ہوسکے کہ کس بنیاد پر انہیں رہا کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول جولائی 2021 میں صرف دو تین سطروں پر مشتمل فیصلہ دیا گیا کہ انہیں پانچ سال سزا سنا دی گئی ہے۔ اس کے بعد کافی عرصے تک ہم کورٹ آف اپیل کی سماعت کا انتظار کرتے رہے لیکن بہت تاخیر سے سماعت ہوئی۔
اسد جمال کا کہنا تھا کہ عام عدالتوں حتیٰ کہ ہائی کورٹ کے فیصلوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن فوجی عدالت میں سویلین کو کوئی دستاویز فراہم نہیں کی جاتی اور نہ ہی فیصلہ کی وجوہات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
اسد جمال کا کہنا تھا کہ حسن عسکری کے اہلِ خانہ اس بارے میں مزید قانونی کارروائی نہیں چاہتے اور اس فیصلے کو کسی اور اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے مطابق اب تک ان کی ملاقات حسن عسکری سے رہائی کے بعد نہیں ہوئی کیوں کہ ان کے اہلِ خانہ کے مطابق حسن ابھی بھی ٹراما میں ہیں۔
اسد جمال کا کہنا تھا کہ "اس کیس میں میں نے چارج شیٹ پڑھی تھی۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل آرمی ایکٹ کے مطابق فوج کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔ اس کے سربراہ کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں۔ "
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کیس سے متعلق مختلف دائر درخواستوں میں پیش ہونے والی حسن عسکری کی وکیل ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں جو معلومات دی گئی ہیں ان کی سزا جتنی وہ گزار چکے ہیں اسے ان کی سزا تصور کرکے باقی سزا معاف کردی گئی ہے اور حسن عسکری اپنے گھر آچکے ہیں۔
حسن عسکری کون تھے؟
حسن عسکری پاکستان فوج کے سابق میجر جنرل (ر) ظفرعسکری کے بڑے بیٹے اور کمپیوٹر انجینئر ہیں۔ ان کے والد نے مارچ میں اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے بیٹے کے بارے میں میڈیا سے بات کی اور کہا کہ میرے بیٹے کو صرف آرمی افسران کو خط لکھنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے کمپیوٹر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے حسن عسکری امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا میں بھی کام کرتے رہے ہیں اور 2015 میں اپنی والدہ کی وجہ سے وہ پاکستان آئے اور اپنے والدین کے ساتھ مقیم تھے۔
ان کے والدین کے مطابق حسن پاکستان کے لیے بہت زیادہ حساس تھا اور ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حسن کی طرف سے فوجی افسران کو خطوط لکھے جانے کا انہیں اس کی گرفتاری کے بعد پتا چلا تھا۔
دو اکتوبر 2020 کو ایک صبح نامعلوم افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے اور حسن عسکری کو گرفتار کرکے لے گئے اور اس دوران ان کے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ بھی لے گئے۔
بعدازاں اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں درج مقدمے کا بتایا گیا اور پھر فوج کی درخواست پر مجسٹریٹ نے انہیں فوجی حکام کے حوالے کر دیا جہاں ان کا کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان پر فوجی افسران کو اپنی سینئر کمان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
پریشان حال والدین کی پریس کانفرنس
28 مارچ کو اسلام آباد میں حسن عسکری کے والد میجر جنرل (ر) ظفر مہدی اور اُن کی اہلیہ وسیمہ عسکری اور بہن زہرا عسکری نے اپنے وکلا کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ اُن کے بیٹے کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔
حسن عسکری کی بہن زہرا مہدی کا کہنا تھا کہ حسن کے خلاف سادہ کاغذ پر فیصلہ لکھ کر پانچ سال کی سزا دی گئی انہیں ساہیوال جیل میں خطرناک دہشت گردوں کے درمیان رکھا گیا ہے۔
زہرا مہدی نے کہا کہ حسن کا فوج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ صرف پاکستان سے محبت کرتا تھا، آج بھی وہ ملک سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا اور اس وقت اس نے کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا۔
ان کاکہنا تھا کہ حسن کے بوڑھے والدین کو ملاقات کے لیے ساہیوال کا سفر کرنا پڑتا ہے اور صرف آدھے گھنٹہ کی ملاقات کے لیے 14 سے 15 گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس پر ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقلی کی درخواست کی تھی۔ اس درخواست پر فیصلہ ہمارے حق میں ہونے کے باوجود انہیں راولپنڈی منتقل نہیں کیا گیا تھا۔
اس نیوز کانفرنس میں حسن کی والدہ وسیمہ عسکری نے کہا تھا کہ ہم اب تھک چکے ہیں، ہردروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود ہمیں انصا ف نہیں مل سکا۔ ان کے بیٹے کے ساتھ جو ہوا وہ انصاف کا قتل ہے، ایک سویلین کو صرف خط لکھنے پر کورٹ مارشل کرکے پانچ سال کے لیے قید کردیا گیا۔
حسن عسکری کی رہائی کی وجوہات سامنے نہیں آ ئیں تاہم تین ہفتے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں مجسٹریٹ کی طرف سے حسن کو ملٹری حکام کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کو ان کے والدین کی طرف سے واپس لینے پر نمٹا دیا گیا تھا اور امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس معاملے میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے اور اب حسن عسکری کو رہا کر دیا گیا ہے۔
حسن عسکری کی رہائی کے معاملے پر وائس آف امریکہ نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا ہے، لیکن تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔