پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کا انتظار ختم ہونے والا ہے اور 17 برس کے طویل عرصے کے بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کو وہ اپنے ملک میں پاکستان کے خلاف کھیلتے ہوئے دیکھیں گے۔
رواں ماہ 20 ستمبر سے شروع ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز سے قبل جب 2005 میں آخری بار دونوں ٹیمیں پاکستانی میدانوں میں آمنے سامنے آئی تھیں تب انٹرنیشنل کرکٹ میں صرف دو ہی فارمیٹ ہوا کرتے تھے۔ ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے کرکٹ۔
یوں اگلے ہفتے کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز دونوں ممالک کے درمیان پہلا ایسا مقابلہ ہے جس کی میزبانی پاکستان کررہا ہے۔
گرین شرٹس کی قیادت بابر اعظم اور انگلینڈ ٹیم کی قیادت جوس بٹلر کر رہے ہیں۔
آل راؤنڈ معین علی جو کہ زخمی بٹلر کے نائب ہیں، چند میچز میں قیادت کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔
یہ سیریز پاکستان میں دو مقامات پر کھیلی جائے گی، جس کے پہلے حصے میں چار ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوں گے جب کہ آخری تین میچوں کے لیے دونوں ٹیمیں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کا رُخ کریں گی۔
ویسے تو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچز کے دوران کئی یادگار واقعات و تنازعات پیش آئے لیکن جس گراؤنڈ میں سیریز کا پہلا میچ کھیلا جائے گا۔ اس گراؤنڈ میں 22 سال قبل ہونے والے میچ کو بہت کم لوگ بھول پائے ہیں۔
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے اس میچ میں انگلینڈ نے نہ صرف پاکستان کو چھ وکٹ سے شکست دی تھی بلکہ بعض مبصرین کے مطابق اندھیرے کو بھی ہرا کر سیریز اپنے نام کی۔
امپائر اسٹیو بکنر نے انگلینڈ کو میچ ختم کرنے کا بھرپور موقع کیوں دیا؟
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 2000 میں کھیلی جانے والی سیریز کے پہلے دونوں میچز ڈرا ہوئے تھے اور امکان تھا کہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں، جہاں پاکستان کی ٹیم نے اس وقت تک کبھی ٹیسٹ میچ نہیں ہارا تھا، شکست دینا مشکل ہوگا۔
گیارہ دسمبر 2000 کو میچ کے آخری دن انگلینڈ کو جیت کے لیے 176 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن رمضان کی وجہ سے خیال کیا جارہا تھا کہ میچ کو مغرب سے پہلے ختم کردیا جائے گا اور انگلینڈ کی ٹیم جسے اس ہدف کے لیے 44 اوورز ملے تھے۔ اس کے اوورز کی تعداد مزید کم ہو جائے گی۔
تاہم امپائر اسٹیو بکنر نے، جو پاکستانی کپتان معین خان کی 'ڈیلیئنگ ٹیکٹکس' (وقت ضائع کرنے کی کوششوں) پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے، میچ کو سورج کے ڈوبنے کے بعد بھی جاری رکھا اور انگلینڈ کو ان کے مقررہ اوورز کھیلنے کا پورا موقع دیا۔جس کے بعد مہمان ٹیم نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔
یہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کسی بھی ٹیم کے خلاف نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پہلی شکست تھی۔ بعض مبصرین کے مطابق اگر پاکستانی کپتان معین خان وقت ضائع نہ کرتے تو شاید پاکستان اس میچ کو ڈرا کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔
میچ کے آخری لمحات میں جب وقار یونس کی گیند پر کپتان معین خان نے ناصر حسین کا کیچ گرایا تو پاکستانی فیلڈرز اور اسٹیڈیم میں موجود شائقین کو وہ شکست نظر آنے لگی، جس کی دن کے آغاز میں کسی نے توقع نہیں کی تھی۔
جس وقت گراؤنڈ میں انگلش ٹیم تاریخ بنانے میں مصروف تھی۔ اسٹیڈیم سے باہر موجود افراد پاکستان ٹیلی ویژن پر رمضان کے حوالے سے پروگرام دیکھ رہے تھے جب کہ میچ کا نتیجہ انہیں بعد میں خبروں کے ذریعے معلوم ہوا۔
یہ وہ وقت تھا جب ملک میں صرف کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے ایک ٹی وی چینل تھا اور انٹرنیٹ کی سہولت ملک بھر میں اس طرح میسر نہیں تھی جیسے آج ہے۔
انگلش کھلاڑیوں کا اپنی سوانح حیات میں اس تاریخی فتح کا ذکر
اپنی سوانح حیات 'پلیئنگ وِد فائر' میں اس میچ میں انگلش ٹیم کی قیادت کرنے والے ناصر حسین لکھتے ہیں کہ کراچی میں کھیلے گئے سیریز کے آخری میچ کا آخری دن بہترین تھا۔ وکٹ کے فلیٹ ہونے کے باوجود ٹیم کو یقین تھا کہ کسی بھی قسم کے نتائج آ سکتے ہیں۔
ناصر حسین لکھتے ہیں کہ خیال کیا جارہا تھا کہ پاکستان کی ٹیم جس کی دن کے آغاز میں سات وکٹیں باقی تھیں، پورا دن بیٹنگ کرے گی اور جب لنچ پر پاکستان کی چھٹی وکٹ گری تو انگلینڈ کو بھی میچ ڈرا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
’’لیکن یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے کی وجہ سے پاکستان ٹیم 158 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی اور انگلینڈ کو 44 اوورز میں 176 رنز کا ہدف ملا۔ جسے حاصل کرکے مہمان ٹیم سیریز کا اختتام فتح کے ساتھ کرسکتی تھی اور اسی وجہ سے شائد پاکستانی ٹیم پر پریشر بڑھ گیا تھا۔‘‘
ناصر حسین مزید لکھتے ہیں کہ پاکستانی بالرز نے پہلے سات اوورز پھینکنے کے لیے 40 منٹ لیے اور 41 اوورز کے لیے ساڑھے تین گھنٹے۔ چائے کے وقفے پر میچ ریفری نے پاکستانی کپتان کو تنبیہ بھی کی۔ جس کے بعد انگلینڈ کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ کم ہوتی ہوئی روشنی ان کی جیت کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے۔
ناصر حسین کے بقول انہوں نے خود کو بیٹنگ آرڈر میں نیچے کی طرف دھکیلا اور مائیکل ایتھرٹن سے بھی گزارش کی کہ وہ ایلک اسٹیورٹ کو اوپن کرنے دیں تاکہ انگلینڈ کو ایک تیز آغاز مل سکے۔ تاہم پہلی اننگز میں سینچری بنانے والے ایتھرٹن نے ایسا کرنے سے منع کردیا اور مارکس ٹریسکوتھک کے ساتھ ٹیم کو بہترین آغاز فراہم کیا۔
ناصر حسین کے بقول وہ پرامید تھے کہ ان کی 'لیفٹ ہینڈ، رائٹ ہینڈ'' کمبی نیشن کی ترجیح، پاکستانی بالرز کو سنبھل کر بالنگ نہیں کرنے دے گی اور ایسا ہی ہوا۔ معین خان کی حربوں کے باوجود ان کی ٹیم جیت کی جانب گامزن تھی۔
انہوں نے مخالف کپتان کی تکنیک کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر انگلش ٹیم میچ ہار رہی ہوتی تو وہ بھی کم روشنی کا بہانہ کرکے میچ ختم کرنے کا سوچتے، لیکن امپائر اسٹیو بکنر پاکستان کے سلو اوور ریٹ سے واقف تھے۔ اس لیے انہوں نے تین بار میزبان ٹیم کی اپیل کو مسترد کیا۔
ناصر حسین نے گراہم تھورپ اور گریم ہک کی بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے اپنی ٹیم کی کامیابی کے لیے اہم قرار دیا۔
انہوں نے پاکستانی کپتان اور تھورپ کے درمیان جملوں کا تبادلہ کا بھی تذکرہ کیا۔ جس میں پاکستانی قائد نے اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا اور گراہم تھورپ نے ان کو شکست کے لیے تیار رہنے کو کہا۔
ناصر حسین جن کا پہلی ہی گیند پر معین خان نے کیچ گرایا، وہ لکھتے ہیں کہ جب تھورپ نے وننگ شاٹ مارا تو صرف بلے بازوں کو ہی گیند نظر آرہی تھی کہ وہ کہاں گئی جب وہ واپس پویلین آرہے تھے تو سوائے ڈریسنگ روم کے سارا اسٹیڈیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
دوسری جانب اس فتح کے مرکزی کردار اور مین آف دے میچ مائیکل ایتھرٹن اپنی کتاب 'اوپننگ اپ' میں اس تاریخی میچ کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ جس کے مطابق انضمام الحق اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کو یقین تھا کہ وہ میچ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
بقول مائیکل ایتھرٹن میچ کے آخری دن چائے کے وقفے کے وقت جب دونوں ٹیمیں واپس پویلین جارہی تھیں تو انہوں نے انضمام الحق سے کہا کہ انگلینڈ یہ میچ جیت سکتا ہے۔ جس پر پاکستانی بلے باز نے مضحکہ خیز انداز میں انہیں جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ کم روشنی کی وجہ سے میچ جلدی ختم کردیا جائے گا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے اردو میں کچھ کہا۔ جس پر ان سب نے قہقہہ لگایا اور پوری ٹیم جیت یا ڈرا کا سوچتے ہوئے ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔
ان کے بقول جب ساڑھے پانچ بجے اذان ہوئی تو انگلینڈ کو جیت کے لیے درجن بھر رنز درکار تھے۔ جنہیں گراہم تھورپ اور ناصر حسین نے باآسانی حاصل کرکے انگلینڈ کو چھ وکٹوں سے کامیابی دلائی۔
مائیکل ایتھرٹن جو میچ کے آخری لمحات میں ڈریسنگ روم میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ میں سے کسی کو بھی فیلڈ پر گیند نظر نہیں آرہی تھی۔ وننگ شاٹ کے بعد کریگ وائٹ نے پاگلوں کی طرح بیٹ گھمانا شروع کردیا جب کہ اینڈی کیڈک نے 'الکوہل فری زون' میں ایک خیالی بوتل کھول کر جشن منایا۔
ایتھرٹن کے مطابق جب ان کو مین آف دی میچ کا ایوارڈ مل رہا تھا تو اس وقت وہی انضمام الحق جوکچھ گھنٹے پہلے شکست کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، ان کی اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
پاکستانی کپتان معین خان کی پھیلی ہوئی فیلڈ
انگلش کھلاڑیوں کے برعکس پاکستانی کرکٹرز کم ہی اپنا مؤقف سنانے کے لیے سوانح حیات کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس میچ کی فائنل الیون میں موجود کسی کھلاڑی نے اس شکست کے حوالے سے کبھی اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔
تاہم انگلش صحافی اور پاکستانی کرکٹ پر متعدد کتابوں کے مصنف پیٹر او بورن اس تاریخ ساز میچ کو اپنی کتاب 'وونڈڈ ٹائیگرز، دی ہسٹری آف پاکستان کرکٹ' میں کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
انضمام الحق اور محمد یوسف کی سینچریوں کی بدولت پاکستان ٹیم نے پہلی اننگز میں 405 رنز بنائے۔ جس کے جواب میں انگلش ٹیم 388 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔
انگلش اننگز کی خاص بات مائیکل ایتھرٹن کے 125 رنز تھے جو انہوں نے 9 گھنٹے اور 36 منٹ میں 350 ڈاٹ گیندیں کھیل کر بنائے۔
کھیل کے چوتھے دن انگلش اسپنر ایشلی جائلز کی بالنگ کے باعث انگلش ٹیم نے میچ میں کم بیک کیا اور آخری دن پاکستان کے چھ بلے باز صرف 30 رنز کا اضافہ کرسکے۔ جس کے بعد انگلینڈ کو جیت کے لیے 44 اوورز میں 176 رنز کا ہدف ملا۔
ثقلین مشتاق کی جادوئی بالنگ نے انگلینڈ کی پہلی تین وکٹیں 51 رنز پر گرادیں۔ تاہم گراہم تھورپ اور گریم ہک کے درمیان 91 رنز کی پارٹنرشپ نے مہمان ٹیم کو سہار ا دیا۔
دونوں بلے بازوں نے پاکستانی کپتان معین خان کی پھیلی ہوئی فیلڈ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سنگلز اور ڈبلز پر انحصار کیا۔
معین خان کی ساتھی کھلاڑیوں سے مشورے کے لیے لمبے لمبے وقفوں کے باوجود انگلش ٹیم نے اندھیرا ہوجانے کے باوجود ہدف کا تعاقب کرلیا۔
جب انگلش کپتان ناصر حسین اور گراہم تھورپ فتح کا جشن مناتے ہوئے پویلین کی جانب واپس لوٹ رہے تھے تو اس وقت اطراف کی مسجد سے مغرب کی اذان کی آوازیں آرہی تھی۔ جس سے وقت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔