پاکستان میں ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے بڑے واقعات میں سے ایک واقعہ 18 برس قبل 27 جولائی 2003 کو رونما ہوا تھا جب تسمان اسپرٹ نامی بحری آئل ٹینکر کراچی کے بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے قبل ہی ساحل سے کچھ ہی فاصلے پر ریت میں پھنس گیا تھا۔
اس جہاز پر پاکستان آئل ریفائنری کے لیے تیل لایا جا رہا تھا۔ جہاز کے پھنسنے کے چند روز کے بعد ہی اس میں موجود ایران سے لایا گیا خام تیل خارج ہونا شروع ہو گیا اور بحری جہاز سے تقریبا 33 ہزار ٹن تیل کا اخراج ہوا جس نے کراچی کے ساحلی علاقوں اور سمندر کو کئی ماہ تک شدید متاثر رکھا۔
جہاز سے تیل کے اخراج نے ساحل پر مینگروز کے جنگلات، مچھلیوں، کیکڑوں، سی ٹرٹلز، پرندوں کی افزائش اور نشوونما کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس اخراج سے جہاں آبی آلودگی بڑھی۔ وہیں فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ریکارڈ ہوا۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیات کے ایمرجنسی سینٹر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس بدترین تباہی کے اثرات کئی ماہ تک سمندر کے اندر اور باہر نباتات اور حیوانات پر دیکھے گئے۔
اب لگ بھگ دو دہائیوں بعد سنگاپور سے براستہ ہانگ کانگ کراچی آنے والا ایک اور بحری جہاز ایم وی ہینگ ٹانگ بھی ریت میں دھنس چکا ہے جسے نکالنے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ دو ہفتے یا اس سے بھی زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
یہ بحری جہاز اگرچہ کارگو ہے البتہ اس میں بھی تیل موجود ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ تیل کے اخراج کی صورت میں یہ کراچی کے ساحل کو ایک بار پھر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ البتہ اس میں موجود خام تیل تقریباََ 118 ٹن بتایا جاتا ہے جو تسمان اسپرٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ماہرین ماحولیات یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر اس بحری جہاز سے تیل کا اخراج ہوتا ہے تو کیا صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے اور کیا اس سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری کی گئی ہے؟
’پاکستان بحری جہاز سے تیل کا اخراج روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘
ماہرِ ماحولیات اور اس متعلق کئی انتظامی عہدوں پر فائز رہنے والے محمد علی خان کا کہنا ہے کہ اس بحری جہاز ایم وی ہینگ ٹانگ 77 اور 2003 میں ساحل پر پھنسنے والے بحری جہاز تسمان اسپرٹ میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
ان کے خیال میں تسمان اسپرٹ کے واقعے کے بعد متعلقہ اداروں نے ایسی تباہی سے نمٹنے کے لیے اپنی استعداد کافی بہتر کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر کسی بھی وجہ سے اس جہاز سے تیل کا اخراج شروع ہوتا ہے تو اس کے لیے کنٹینر بومز موجود ہیں جس کی مدد سے تیل کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صلاحیت پاکستان کے پاس پہلے سے موجود ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس قسم کے ماحولیاتی نقصان کے بغیر ہی اس جہاز کو نکال لیا جائے گا کیوں کہ یہ جہاز تسمان اسپرٹ کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے اور اس میں تیل بھی کم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بندرگاہ اور اس کے اطراف میں تیل کے اخراج کو روکنے کی ذمہ داری جہاں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ہے تو اس ہنگامی بنیاد پر اقدامات کی ذمہ داری پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی فورس کی ہے۔ اس کے لیے تواتر کے ساتھ بارہ کوڈہ مشقیں کی جاتی رہی ہیں۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ترجمان کا بھی کہنا ہے کہ پھنسے ہوئے بحری جہاز سے تیل کے ممکنہ اخراج سے ساحل اور سمندر کو بچانے کے لیے مٹی سے پشتے بنائے جا رہے ہیں یہ پشتے ہوا کی سمت کو دیکھتے ہوئے اس طرح بنائے گئے ہیں کہ تیل کے اخراج کی صورت میں ساحل کا بڑا حصہ متاثر نہ ہو۔
وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کے مطابق جہاز کے پھنسے کی وجوہات کے تعین کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جو ایک ہفتے میں اپنی رپورٹ جمع کرائے گی۔
پاکستان کے پاس پھنسے ہوئے جہازوں کو نکالنے کی صلاحیت کیوں نہیں؟
لیکن اس سوال پر کہ پاکستان کے پاس سیلویج ماسٹر (پھنسے ہوئے جہاز کو نکالنے کے لیے استعمال ہونے والا بحری جہاز) کیوں نہیں ہے؟ پر کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ایک سابق چیئرمین نے وائس آف امریکہ کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کو رکھنے میں کوئی عار تو نہیں ہے البتہ ایسے جہاز رکھنا مالی اعتبار آسان نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ساحل جہاز پھنسنے کا کوئی واقعہ دہائیوں میں ہوا کرتا ہے، اس مقصد کے لیے سیلویج ماسٹر رکھنا کم از کم پاکستان جیسی معیشت کے لیے ہاتھی پالنے کے مترادف ہے جو ظاہر ہے کہ براشت نہیں کیا جا سکتا۔
ان کے مطابق اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو عام طور پر سیلویج ویسل کی خدمات کرائے پر حاصل کی جاتی ہیں جو زیادہ قابلِ عمل طریقۂ کار ہے۔
اس معاملے پر وزارتِ بحری امور کے حکام کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے سیلویج ماسٹر ایک دو روز میں کراچی پہنچ جائے گا۔ جب کہ آپریشن میں مدد کے لیے کے پی ٹی کی دو ٹگ بوٹس بھی موجود ہوں گی۔
’جہاز کو بر وقت مدد فراہم کی گئی یا نہیں، تحقیقات ضروری ہیں‘
سابق چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ ایم وی ہینگ ٹانگ 77 کے ساحل پر پھنسنے میں اس بات کی تحقیق ہونا بھی ضروری ہے کہ جہاز کو بر وقت مدد کیوں نہیں دی گئی۔ حالاں کہ یہ خبر سامنے آ چکی ہے کہ جہاز کے کپتان نے پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ کے ایمرجنسی کنٹرول رومز سے مدد کی درخواست کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس قسم کی تحقیقات کو سامنے نہیں لایا جاتا جس کی وجہ سے اصل حقائق منظر عام پر نہیں آتے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے مستقبل میں نمٹنے کے لیے کوئیک رسپانس فورس بھی ہونی چاہیے جو ایسے کسی بھی واقعے میں فوری کارروائی کرے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سمندری امور محمود مولوی کا کہنا ہے کہ اس جہاز کے ریت میں پھنسنے میں جہاز کی انتظامیہ کی غلطیاں کافی حد تک عیاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاز کسی صورت اس قدر کمزور انجن کے ساتھ نہیں آ سکتا تھا۔
معاون خصوصی کے بقول کپتان نے تاخیر سے مدد کے لیے کال کی تب تک جہاز کے دونوں انجن بند ہو چکے تھے اور جہاز ساحل کے قریب آ گیا تھا اور اس وقت خاصی تاخیر ہو گئی تھی۔
پانامہ میں رجسٹرڈ ایم وی ہینگ ٹانگ-77 کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اس کا مالک ایک ایرانی شخص ہے جس کی کمپنی دبئی میں رجسٹرد ہے۔
رپورٹس کے مطابق جہاز کو ریت سے نکالنے کے جو بھی اخراجات ہوں گے ان کی ادائیگی بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن کے قوانین کے تحت بحری جہاز کے مالک ہی کی ذمہ داری ہے۔