طالبان افغانستان پر قبضے کے بعد تمام فریقین پر مشتمل حکومت کے قیام کا عندیہ دے رہے ہیں۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک بھی افغانستان میں ہر فریق کو حکومت میں شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان تمام فریقین کی شمولیت سے جس حکومت کے قیام کی بات کر رہے ہیں اس کے کیا خدوخال ہوں گے اور اس میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں؟ اس بارے میں سرِ دست کئی تجزیات اور اندازے ہی سامنے آ رہے ہیں۔
ایک کثیر لسانی اور کثیر قومی معاشرہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میں ایسے سیاسی نظام کی تشکیل ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے جو تمام طبقات کی خواہشات کی عکاسی بھی کرتا ہو۔
مبصرین کے مطابق افغانستان میں سماجی سطح پر قبائلی، لسانی اور نسلی شناخت اہمیت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی ان کی علامتی حیثیت ہے۔
کابل میں طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان آنے والے تاجک رہنما اور سابق وزیرِ خارجہ صلاح الدین ربانی نے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان ایسا ملک ہے جس پر کوئی ایک گروہ حکومت نہیں کر سکتا یا کوئی ایک گروپ تنہا وہاں امن و استحکام قائم نہیں کر سکتا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر طالبان تمام فریقین کی شمولیت سے حکومت کے قیام کا وعدہ پورا نہیں کرتے تو وہ اقتدار پر اپنی گرفت نہیں رکھ پائیں گے۔
افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل سے قبل وہاں موجود لسانی اور نسلی گروہوں کے بارے میں حقائق پیشِ نظر رہنے چاہییں۔
افغان اقوام میں کون کون شامل ہے؟
امریکہ سے تعلق رکھنے والے افغان امور اور سیاسیات کے ماہر برنٹ ریوبن کے مطابق عام طور پر افغان لفظ کا اطلاق صرف پشتونوں ہی پر ہوتا تھا۔ لیکن 1923 کے بعد افغانستان میں بننے والے ہر آئین میں افغانستان کے تمام شہریوں کو افغان قرار دیا گیا۔
اسی طرح افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2004 میں منظور ہونے والے آئین کے مطابق افغانستان کی شہریت رکھنے والے ہر فرد کو افغان قوم کا حصہ قرار دیا گیا۔
اس میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ افغانستان کی قوم پشتون، تاجک، ہزارہ، ازبک، عرب، ترکمان، بلوچ، پشائی، نورستانی، ایمق، کرغز، قزلباش، گوجر، براہوی، دیگر قبائل اور لسانی گروہوں پر مشتمل ہے اور ان سب پر لفظ افغان کا اطلاق ہوتا ہے۔
آبادی کے اعداد و شمار
افغانستان میں سرکاری سطح پر 1979 تک کوئی مردم شماری نہیں کی گئی تھی۔ 1979 میں پہلی بار مردم شماری ہوئی اس سے قبل کچھ بڑے شہروں کے اعداد و شمار جمع کیے جاتے تھے۔
طالبان کی حکومت کے خاتمے کے کئی برس بعد 2008 میں بھی مردم شماری کی کوشش کی گئی البتہ اس میں ملک کی صورتِ حال کی وجہ سے کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ بعد ازاں 2013 میں بھی آبادی کے بارے میں اعداد و شمار جمع کیے گئے۔
عالمی بینک کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی آبادی تین کروڑ 89 لاکھ سے زائد ہے۔ مختلف جائزوں کے مطابق افغانستان میں 42 فی صد آبادی پشتون ہیں جب کہ دوسرا بڑا نسلی گروہ تاجک ہیں۔
اقلیتی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'مائنورٹی رائٹس' کے مطابق افغانستان کی آبادی میں 27 فی صد تاجک ہیں۔ اسی طرح ہزارہ اور ازبک نو، نو فی صد، ترکمان تین، بلوچ دو اور دیگر نسلی اور لسانی گروہ آبادی کا آٹھ فی صد ہیں۔
مائنورٹی رائٹس کے مطابق افغانستان کی 50 فی صد آبادی کی زبان دری ہے۔ 35 فی صد کی زبان پشتو جب کہ دیگر زبانوں میں ایمق، بلوچی، اشکون، گوجری، ہزارگی، مغلی، پشئی، نورستانی اور پامیری زبانیں شامل ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم کے مطابق افغانستان کی 99 فی صد آبادی مسلم ہے جن میں 84 سے 89 فی صد سنی اور 10 سے 15 فی صد اہل تشیع اور دیگر مکاتب فکر ہیں۔ اس کے علاوہ بہت کم تعداد میں سکھ اور ہندو آبادی بھی ہے جب کہ یہاں بسنے والے یہودی اسرائیل منتقل ہو چکے ہیں۔
افغانستان کی بنیاد رکھنے والے پشتون
سن 1747 میں اس خطے میں افغانستان کی بنیاد رکھنے والے احمد شاہ درانی بھی پشتون قبائل سردار تھے جس کے بعد یہاں قائم ہونے والی اکثر بادشاہتیں اور حکومتیں بھی زیادہ تر پشتونوں کے پاس رہی ہیں۔
بیس برس بعد دوسری بار کابل کا کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان کی مرکزی قیادت بھی پشتونوں کے ہاتھ میں ہے اور اس سے قبل ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد یہاں صدر رہنے والے حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں پشتون ہی تھے۔
سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں پشتونوں کا کردار سب سے نمایاں تھا۔
برنٹ ریوبن کی کتاب ’افغانستان: واٹ ایوری ون نیڈز ٹو نو اباؤٹ افغانستان‘ میں لکھتے ہیں پشتونوں میں پدر سری قبائل نظام بڑی حد تک آج بھی قائم ہیں۔ پشاور سے کابل اور کابل کے جنوب سے بلوچستان اس کے بعد مغرب میں ہرات تک کے علاقوں میں ان کی اکثریت آباد ہے۔
دوسرا بڑا نسلی گروہ
افغانستان میں دوسرا بڑا نسلی گروہ تاجک ہیں۔ ملک کی ایک چوتھائی آبادی انہی پر مشتمل ہے۔ پشتونوں کی طرح ان کی اکثریت بھی سنی مسلمان ہے اور ان کی زبان دری ہے۔ یہ زیادہ تر افغانستان کے شمال کے پہاڑی سلسلوں پنجشیر اور بدخشاں کے صوبوں میں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ ہرات، کابل اور مزارِ شریف میں بھی ان کی آبادی ہے۔
افغانستان کی مختصر تاریخ مرتب کرنے والی امینڈا روربیک کے مطابق حالیہ تاریخ میں احمد شاہ مسعود مقبول ترین تاجک سیاسی رہنما تھے۔ 1996 میں انہوں نے طالبان کے خلاف شمالی اتحاد بنایا تھا۔ 2001 میں نائن الیون کے حملوں سے دو روز قبل نو ستمبر کو ان کا قتل ہو گیا تھا۔
طالبان سے قبل احمد شاہ مسعود سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے والے اہم ترین کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے۔
افغانستان کی تاریخ پر اپنے کتابچے 'افغانستان ان اے نٹ شیل' میں روربیک لکھتی ہیں کہ 1929 میں افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران ایک تاجک حبیب اللہ کلکانی چند ماہ کے لیے افغانستان کے حکمران رہے، جنہیں 'بچہ سقہ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عام طور پر افغانستان کی سیاست و حکومت میں تاجکوں کا کردار ثانوی رہا ہے لیکن 2002 میں بننے والی پہلی عبوری حکومت میں ان کا سیاسی کردار نمایاں ہوا۔
بعد ازاں 2004 میں ہونے والے افغانستان کے پارلیمانی انتخابات میں پشتونوں نے واضح نمائندگی حاصل کی۔ لیکن تمام نسلی گروہوں کو نمائندگی دینے کے لیے احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیا مسعود کو نائب صدر اور یونس قانونی کو اسمبلی یا ولوسی جرگہ کا اسپیکر بنایا گیا۔
صدر اشرف غنی کی بے دخل ہونے والی حکومت کے نائب صدر امر اللہ صالح احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی بھی تاجک ہیں۔ حکومت کے خاتمے کے بعد وہ پنجشیر لوٹ گئے ہیں اور وہاں احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر چکے ہیں۔
’سب سے زیادہ جبر کا سامنا کرنے والے‘
ہزارہ افغانستان کا تیسرا بڑا نسلی گروہ ہے۔ یہ قبیلہ تیرہویں صدی میں افغانستان میں آ کر آباد ہوا۔ ان کی اکثریت شیعہ مسلم ہیں۔ ان کی آبادی وسطی افغانستان کے علاقوں میں آباد ہے جسے 'ہزارہ جات' بھی کہا جاتا ہے۔
طالبان نے اپنی گزشتہ حکومت میں مارچ 2001 میں اسی علاقے میں بامیان میں گوتم بدھ کے مجسمے مسمار کیے تھے۔
ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کو افغانستان میں سب سے زیادہ جبر کا سامنا رہا ہے۔ ریوبن کے مطابق 19 ویں صدی تک ہزارہ کابل یا پشتون حکمرانوں کے تحت نہیں رہے۔ 1880 میں افغانستان کے حکمران بننے والے امیر عبد الرحمٰن نے ہزارہ جات کے علاقوں پر قبضہ کیا اس دوران اس قوم کے افراد کا قتلِ عام ہوا اور انہیں غلام بھی بنا لیا گیا۔
امیر عبد الرحمٰن کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد ان کے پیش رو حکمرانوں نے ہزارہ افراد کو غلامی سے آزاد کیا البتہ اس کے باوجود انہیں زمینیں نہیں دی گئیں۔
اس کے بعد طویل عرصے تک ہزارہ افراد کو شہروں میں چھوٹی موٹی نوکریوں کی صورت ہی میں روزگار کے مواقع میسر تھے۔ بیسویں صدی میں بھی ہزارہ قوم کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا رہا۔
ہزارہ قبائل نے دیگر شیعہ گروہوں کے ساتھ مل کر 1960 اور 1970 کی دہائی میں خانہ جنگی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1980 کے دور میں سوویت یونین کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں ہزارہ نے اپنے گروپ تشکیل دیے جن میں سے بعض کو ایران کی حمایت بھی حاصل تھی۔
سوویت انخلا کے بعد شیعہ ہزارہ نے 'حزبِ وحدت' کے نام سے اپنی ملیشیا بنائی جو بعد ازاں احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی سے اتحاد پر تقسیم کا شکار ہوگئی۔
مائنورٹی رائٹس کے مطابق 1992 سے 1995 کے دوران عبد العلی مزاری وہ پہلے ہزارہ رہنما تھے جو ہر ہزارہ اور شیعہ آبادی کے مسائل کو اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے لائے۔ مزاری نے 1993 میں طالبان کی قیادت سے معاہدہ کیا تھا۔ بعد ازاں 1995 میں انہیں سفاکی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
اسی برس حزبِ وحدت نے طالبان مخالف ازبک کمانڈر عبد الرشید دوستم کی قائم کردہ شوریٰ عالی دفاع میں شمولیت اختیار کی۔ اس عرصے کے دوران ہزارہ جات میں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں سمیت اسکول کھل گئے تھے اور بامیان میں ایک یونیورسٹی بھی قائم ہوئی۔
طالبان نے 1996 میں حکومت بنائی تو ہزارہ قوم کے لیے پھر مشکل وقت شروع ہوا۔ 1998 میں طالبان نے ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ افراد کا قتلِ عام کیا اور ان کی بڑی تعداد کو ترکِ وطن کرنا پڑا۔
مائنورٹی رائٹس کے مطابق 2001 میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد ہزارہ نسل کے افراد کے حالات میں بہتری آئی۔ 2004 کے آئین میں جن نسلی اقلیتوں کو تسلیم کیا گیا ان میں ہزارہ بھی شامل تھے۔ حزبِ وحدت کے سربراہ عبد الکریم خلیلی ہزارہ کے نمائندہ تصور ہوتے ہیں۔
فاریاب سے بدخشاں تک
افغانستان میں ازبک ترک زبان بولنے والا سب سے بڑا لسانی گروہ ہے۔ یہ افغانستان کے شمالی صوبے فاریاب سے مغرب میں بدخشاں صوبے تک آباد ہیں۔ پندرہویں صدی تک ازبکوں کی وفاداریاں تیموری نسل سے تعلق رکھنے والے شہزادوں کے ساتھ رہیں لیکن سولہویں صدی تک انہوں نے بخارا، سمرقند اور خیوا کے علاقوں پر حکومت قائم کی۔
ہسٹوریکل ڈکشنری آف افغانستان کے مطابق ازبکوں نے مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کو فرغانہ سے بے دخل کر دیا تھا۔ اس کے بعد 1510 میں ازبکوں کو ایران کے شاہ اسماعیل نے شکست دی اور دریائے آمو اور سائر دریا کے درمیانی علاقے جسے ٹرانس اوکسیانا بھی کہا جاتا ہے، اس میں ازبکوں کی چھوٹی ریاست یا خانات قائم ہوئی۔
بعد ازاں احمد شاہ ابدالی نے سرحدی حملوں سے بچاؤ کے لیے بلخ کا علاقہ حاجی خان ازبک کے حوالے کر دیا تھا۔ ابدالی کی موت کے بعد امیر شیر علی نے یہ علاقہ ان سے واپس لے لیا تھا۔
سوویت دور میں ہونے والی مزاحمت میں پشتون پیش پیش تھے۔ اس لیے سوویت یونین نے ازبکوں کو با اختیار بنایا اور اپنے خلاف مزاحمت کرنے والے ’مجاہدین‘ کے مقابلے کے لیے تیار کیا۔ اس وقت تک ازبکوں کی کوئی باقاعدہ سیاسی تنظیم نہیں تھی۔
جنرل عبدالرشید دوستم نے جب نجیب اللہ حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو شمالی صوبوں میں اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں وہ ازبکوں کی نمائندگی کے دعوے دار بن گئے تھے۔
دوستم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو دھوکہ دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کو ناکام بنایا تھا بلکہ اس دوران کابل میں جوزجانی ملیشیا کو لا کر افغان دارالحکومت میں ایک ہفتے کے دوران اتنی تباہی مچائی جو بعض مبصرین کے بقول سابق سوویت یونین کی افواج اور مجاہدین کے درمیان 10 سال جاری رہنے والی جنگ میں بھی نہیں ہوئی تھی۔
بعد ازاں اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کے خلاف احمد شاہ مسعود کا حلیف بننے والے رشید دوستم ایک سال سے بھی کم عرصے میں ان کے حریف بن گئے تھے۔
دوستم کی جماعت 'افغانستان نیشنل اسلامک موومنٹ' اس چار جماعتی اتحاد کا حصہ بنی تھی جس نے کابل میں پروفیسر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کی حکومت کو گرانے کے لیے مسلح حملے شروع کر دیے تھے۔
طالبان حکومت کے خاتمے پر رشید دوستم کے جنگجوؤں نے ہزاروں طالبان اور ان کے غیر ملکی ساتھیوں کو گرفتار کر کے جوزجان، مزار شریف اور شمالی افغانستان کے دیگر علاقوں کی جیلوں میں قید کر لیا تھا۔ ان قیدیوں میں سے بہت سے پانی، خوراک اور ادویات نہ ملنے اور تشدد کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔
طالبان حکومت کے خاتمے پر وہ کچھ عرصے تک سابق صدر حامد کرزئی کے قریب رہے تھے۔ مگر بعد میں وہ شمالی اتحاد کی سیاست سے مجبور ہو کر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور یونس قانونی کے ساتھی بن گئے تھے۔
حامد کرزئی کے 11 سالہ اقتدار میں رشید دوستم نے بھی کئی کروٹیں لیں اور ان کے اقتدار کے خاتمے سے قبل جب ڈاکٹر اشرف غنی نے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا تو رشید دوستم ان کے اتحادی بنے اور انتخابات میں نائب صدر اول منتخب ہو گئے۔
مگر 2016 میں ان کے ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ ایسے اختلافات پیدا ہو گئے کہ وہ اپنے آبائی صوبے کے گورنر اور اپنے حریف کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے ترکی چلے گئے جہاں سے وہ 2018 میں واپس لوٹے۔
افغانستان واپس آنے پر وہ عملاً نائب صدر کے عہدے سے دست بردار ہو گئے تھے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے 2019 کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا ساتھ دیا اور انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
افغانستان کے شمال میں طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے بعد عبدالرشید دوستم نے صدر اشرف غنی کے ساتھ مزار شریف کا دورہ بھی کیا لیکن مزارِ شریف پر طالبان کے قبضے کے بعد وہ بلخ کے گورنر عطا نور کے ساتھ ازبکستان کی جانب فرار ہوگئے۔
تمام فریقین پر مشتمل حکومت مگر کیسے؟
ماضی میں افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کو نمائندگی دینے کے لیے آئینی بندوبست تشکیل دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ 2004کے آئین میں اس کے خدوخال واضح تھے اور انتخابات کے ذریعے ان کو نمائندگی بھی مل جاتی تھی۔
طالبان ایک جانب تو تمام فریقوں پر مشتمل حکومت کے قیام کی بات کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب وہ افغانستان میں ’امارات اسلامیہ‘ کے قیام کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔
اپنی قیادت کے فیصلوں سے باخبر طالبان رہنما وحیداللہ ہاشمی نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو انٹرویو میں افغانستان میں طالبان حکومت کے ممکنہ ڈھانچے کے بارے میں بتایا ہے۔
اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر ایک کونسل افغانستان پر حکومت کرے گی اور طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اس کے نگران ہوں گے۔
وحید اللہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جمہوریت کسی صورت نہیں ہوگی کیوں کہ اس کی ملک میں بنیادیں نہیں ہیں۔
طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں سیاسی نظام کی نوعیت پر کوئی بات نہیں کریں گے کیوں کہ یہ واضح ہے کہ یہاں شریعت کا قانون ہوگا۔