یورپی یونین نے واضح کیا ہے کہ برطانیہ میں نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے باوجود بریگزٹ سے متعلق اس معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی جو یورپی یونین اور سابق برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے کے درمیان طے پایا تھا۔
منگل کو برسلز میں صحافیوں سے گفتگو میں یورپی کمشن کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام فریقین جانتے ہیں کہ کن امور پر اتفاق ہو چکا ہے اور جو امور بھی طے پائے ہیں ان کی یونین کے تمام رکن ممالک نے منظوری دی ہے۔
ترجمان کے بقول، نئے برطانوی وزیرِ اعظم کے انتخاب کے بعد بھی طے شدہ امور میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
سابق وزیرِ اعظم تھریسا مے کی حکومت اور یورپی یونین نے برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے بارے میں کئی ماہ طویل مذاکرات کے بعد جس معاہدے پر اتفاق کیا تھا اسے برطانوی پارلیمان تین بار مسترد کر چکی ہے۔
حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے ارکانِ پارلیمان کی اکثریت بھی معاہدے کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ تھریسا مے نے معاہدے کی پارلیمان سے منظوری کے لیے حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی سے بھی تعاون مانگا تھا جس کے انکار پر وہ بالآخر رواں ماہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی تھیں۔
تھریسا مے کی جگہ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے 10 رہنما میدان میں ہیں۔ حکمران جماعت کا نیا سربراہ ہی ملک کا اگلا وزیرِ اعظم ہو گا۔
وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں کی اکثریت اپنی انتخابی مہم کے دوران اقتدار میں آنے کے بعد یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ پر نیا معاہدہ کرنے یا یونین سے مزید رعایتیں لینے کے وعدے اور اعلانات کر رہی ہے۔
تجزیہ کار بریگزٹ کے سرگرم حامی اور تھریسا مے کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ رہنے والے بورس جانسن کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔
بورس جانسن اعلان کر چکے ہیں کہ وہ بریگزٹ پر نیا معاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کو ان اربوں ڈالرز کی ادائیگی بھی نہیں کریں گے جو یونین کے بجٹ کی مختلف مدات میں برطانیہ پر واجب الادا ہیں۔
لیکن کئی یورپی رہنما برطانوی وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروں کے ان بلند و بانگ دعووں کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ پر مزید مذاکرات نہیں ہوں گے۔
یورپی یونین کے اہم رکن جرمنی کے وزیرِ برائے یورپی امور مائیکل روتھ نے منگل کو خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں یہی موقف دوہرایا۔
انہوں نے کہا کہ تھریسا مے کی جانشینی کے امیدوار انتخابی وعدے کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔
یورپی یونین برطانوی پارلیمان کی جانب سے مجوزہ معاہدہ بار بار مسترد کرنے کے بعد بریگزٹ کی تاریخ میں پہلے ہی توسیع کر چکی ہے اور اب اس کے لیے 31 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
یورپی رہنما کہہ چکے ہیں کہ اس تاریخ میں اب مزید توسیع نہیں ہو گی۔