برلن —
افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے نقلِ مکانی کے بعد ، یورپ میں پناہ گزینوں کا درجہ حاصل کرنے کے خواہشمند لوگوں کو اکثر کام کرنے اور ان ملکوں میں رہنے کی اجازت کے لیے طویل عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ گذشتہ سال پناہ کے متلاشی کچھ لوگوں نے طویل انتظار سے تنگ آکر، جرمنی، آسٹریا اور دوسرے ملکوں میں، حراستی مراکز کو چھوڑ دیا اور اپنے مسئلے پر توجہ مبذول کرانے کے لیے خیموں قائم کر لیے ۔ ایسا ہی ایک کیمپ مقامی لوگوں اور دوسرے تارکینِ وطن کی مدد سے، اس سال سردیوں میں برلن میں کام کر رہا ہے۔
گذشتہ اکتوبر میں، جرمنی کے مختلف علاقوں میں رہنے والے تارکینِ وطن برلن کے نواحی علاقے کریوزبرگ میں اورانینپلاٹز کے مقام پر جمع ہوئے۔ وہ حکومت کی طرف سے اپنی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی میں تاخیری حربوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے آئے تھے۔
یہ کیمپ تارکینِ وطن خود چلاتے ہیں۔ انہیں مقامی شہریوں کی اور بعض رضاکاروں کی حمایت حاصل ہے۔ کوکو ایک امریکی رضاکار خاتون ہیں۔ ان کے عمر 20 سال سے کچھ زیادہ ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم یہاں انفو پوائنٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں اس کیمپ میں رہنے والے بہت سے پناہ گزیں یہاں آتے ہیں، اور پوچھتے ہیں کہ کیا ہم کھانے پینے کی کوئی جگہ، یا غسل کرنے کی کوئی جگہ تلاش کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں، یا کوئی ان کے کپڑے دھو سکتا ہے۔ ہم نے اس علاقے میں اور اس کے ارد گرد بہت سے لوگوں کی فہرست تیار کر لی ہے جنھوں نے اپنے گھروں میں رضاکارانہ طور پر کمرے دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے، یا وہ ہمیں یہ بتا دیتے ہیں کہ ان کے پاس مفت کمرے یا غسل خانے یا سونے کی جگہ موجود ہے۔‘‘
یہ کیمپ کافی پھیلا ہوا ہے۔ اس میں کئی ٹینٹ ہیں جن میں چولہوں سے نکلنے والا دھواں، دھات کی چمنیوں سے باہر نکلتا رہتا ہے۔ صومالیہ کی ایک خاتون عائشہ کہتی ہیں کہ کہ یہاں ایسے ٹینٹ بھی ہیں جہاں تارکینِ وطن قانونی صلاح ومشورہ کرتے ہیں۔
ہم اس بات پر تبادلۂ خیال کر رہےہیں کہ ہم عورتوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنے میں کس طرح ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہم اسی لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
اس کیمپ کے دوسرے حصے میں، کھانے پینے کی چیزوں کا ٹینٹ ہے۔ یہاں مالی کا ایک نوجوان موجود ہے جو کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا ہے اور نہ اپنا نام بتانے کوتیار ہے۔
ناپولی پولانگا سوڈان کی رہنے والی ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا، انھوں نے فرانکفرٹ کے نزدیک پناہ لی تھی۔ انہیں کچھ نہیں معلوم کہ انہیں پناہ گزیں کا درجہ کب ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم یہاں بس وقت گزار رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیا کریں۔ وہ ہم سے کہتے رہتے ہیں کہ بس کھاؤ اور سو جاؤ۔ ہم ایسی زندگی نہیں چاہتے۔ اسی لیے ہم یہاں آ گئے ہیں۔ بہت ہو چکا۔ اب ہمیں مزاحمت کرنی ہوگی۔‘‘
ان کی تحریک کے تین مطالبات ہیں۔ اس کیمپ کی آرگنائزر، ناپولی پولانگا کے مطابق ’’ہم کیمپوں کو ، جو قید خانے ہیں، ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جرمن لوگوں نے ہمیں ان کیمپوں میں ڈال دیا ہے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک بدر کیے جانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ہمارا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں جرمنی میں نقل و حرکت کی آزادی ہو۔‘‘
پاؤلا ریسٹر برلن میں گرین پارٹی کی کونسل وومن ہیں۔ انھوں نے، ان کی پارٹی نے اور اس کے حامیوں نے اس کیمپ کو باقی رہنے دیا ہے، اور وہ اسے چلانے کے لیے پیسہ جمع کرنے میں مد د دے رہی ہیں۔
’’ان کے خیال میں موجودہ حکومت قوانین میں تبدیلیاں نہیں کرے گی، اور تبدیلی کی امید صرف اس صورت میں کی جا سکتی ہے جب اگلے موسمِ خزاں میں نئی حکومت منتخب ہو جائے۔‘‘
جرمنی کی امیگریشن کی وزیر ماریا بوہمیر کے ترجمان اولیور موہر کہتے ہیں کہ وہ تارکینِ وطن کی پریشانی کو سمجھتے ہیں، لیکن اگلا قدم جرمن سیاست دانوں کو اٹھانا ہے۔ ان کے مطابق ’’وہ وضاحت کرتے ہیں کہ اگر امیگریشن کی صورت حال میں تبدیلی ہونی ہے، تو جرمن قانون سازوں کو تبدیلی کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔‘‘
جب تک قانون میں تبدیلی نہ ہو، تارکین وطن کے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ جرمن حکام جن لوگوں کی پناہ کی درخواستیں قبول کر لیتے ہیں، انہیں خوش قسمت خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو جرمنی میں کسی تیسرے ملک سے، جیسے اٹلی سے، یہاں آئے ہیں، انہیں واپس اٹلی بھیج دیا جائے گا، اگر انھوں نے جرمن حکومت کو پناہ کی درخواست دی۔ اس کی وجہ امیگریشن کا وہ قانون ہے جس کا اطلاق پوری یورپی یونین پر ہوتا ہے۔ اس قانون کو ڈبلن ٹو کہتے ہیں۔ بعض تارکینِ وطن چاہتے ہیں کہ ڈبلن ٹو میں تبدیلی کی جائے، لیکن ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم، ناپولی اور ان کے حامی کہتے ہیں کہ وہ اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
گذشتہ اکتوبر میں، جرمنی کے مختلف علاقوں میں رہنے والے تارکینِ وطن برلن کے نواحی علاقے کریوزبرگ میں اورانینپلاٹز کے مقام پر جمع ہوئے۔ وہ حکومت کی طرف سے اپنی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی میں تاخیری حربوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے آئے تھے۔
یہ کیمپ تارکینِ وطن خود چلاتے ہیں۔ انہیں مقامی شہریوں کی اور بعض رضاکاروں کی حمایت حاصل ہے۔ کوکو ایک امریکی رضاکار خاتون ہیں۔ ان کے عمر 20 سال سے کچھ زیادہ ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم یہاں انفو پوائنٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں اس کیمپ میں رہنے والے بہت سے پناہ گزیں یہاں آتے ہیں، اور پوچھتے ہیں کہ کیا ہم کھانے پینے کی کوئی جگہ، یا غسل کرنے کی کوئی جگہ تلاش کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں، یا کوئی ان کے کپڑے دھو سکتا ہے۔ ہم نے اس علاقے میں اور اس کے ارد گرد بہت سے لوگوں کی فہرست تیار کر لی ہے جنھوں نے اپنے گھروں میں رضاکارانہ طور پر کمرے دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے، یا وہ ہمیں یہ بتا دیتے ہیں کہ ان کے پاس مفت کمرے یا غسل خانے یا سونے کی جگہ موجود ہے۔‘‘
یہ کیمپ کافی پھیلا ہوا ہے۔ اس میں کئی ٹینٹ ہیں جن میں چولہوں سے نکلنے والا دھواں، دھات کی چمنیوں سے باہر نکلتا رہتا ہے۔ صومالیہ کی ایک خاتون عائشہ کہتی ہیں کہ کہ یہاں ایسے ٹینٹ بھی ہیں جہاں تارکینِ وطن قانونی صلاح ومشورہ کرتے ہیں۔
ہم اس بات پر تبادلۂ خیال کر رہےہیں کہ ہم عورتوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنے میں کس طرح ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہم اسی لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
اس کیمپ کے دوسرے حصے میں، کھانے پینے کی چیزوں کا ٹینٹ ہے۔ یہاں مالی کا ایک نوجوان موجود ہے جو کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا ہے اور نہ اپنا نام بتانے کوتیار ہے۔
ناپولی پولانگا سوڈان کی رہنے والی ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا، انھوں نے فرانکفرٹ کے نزدیک پناہ لی تھی۔ انہیں کچھ نہیں معلوم کہ انہیں پناہ گزیں کا درجہ کب ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم یہاں بس وقت گزار رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیا کریں۔ وہ ہم سے کہتے رہتے ہیں کہ بس کھاؤ اور سو جاؤ۔ ہم ایسی زندگی نہیں چاہتے۔ اسی لیے ہم یہاں آ گئے ہیں۔ بہت ہو چکا۔ اب ہمیں مزاحمت کرنی ہوگی۔‘‘
ان کی تحریک کے تین مطالبات ہیں۔ اس کیمپ کی آرگنائزر، ناپولی پولانگا کے مطابق ’’ہم کیمپوں کو ، جو قید خانے ہیں، ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جرمن لوگوں نے ہمیں ان کیمپوں میں ڈال دیا ہے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک بدر کیے جانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ہمارا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں جرمنی میں نقل و حرکت کی آزادی ہو۔‘‘
پاؤلا ریسٹر برلن میں گرین پارٹی کی کونسل وومن ہیں۔ انھوں نے، ان کی پارٹی نے اور اس کے حامیوں نے اس کیمپ کو باقی رہنے دیا ہے، اور وہ اسے چلانے کے لیے پیسہ جمع کرنے میں مد د دے رہی ہیں۔
’’ان کے خیال میں موجودہ حکومت قوانین میں تبدیلیاں نہیں کرے گی، اور تبدیلی کی امید صرف اس صورت میں کی جا سکتی ہے جب اگلے موسمِ خزاں میں نئی حکومت منتخب ہو جائے۔‘‘
جرمنی کی امیگریشن کی وزیر ماریا بوہمیر کے ترجمان اولیور موہر کہتے ہیں کہ وہ تارکینِ وطن کی پریشانی کو سمجھتے ہیں، لیکن اگلا قدم جرمن سیاست دانوں کو اٹھانا ہے۔ ان کے مطابق ’’وہ وضاحت کرتے ہیں کہ اگر امیگریشن کی صورت حال میں تبدیلی ہونی ہے، تو جرمن قانون سازوں کو تبدیلی کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔‘‘
جب تک قانون میں تبدیلی نہ ہو، تارکین وطن کے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ جرمن حکام جن لوگوں کی پناہ کی درخواستیں قبول کر لیتے ہیں، انہیں خوش قسمت خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو جرمنی میں کسی تیسرے ملک سے، جیسے اٹلی سے، یہاں آئے ہیں، انہیں واپس اٹلی بھیج دیا جائے گا، اگر انھوں نے جرمن حکومت کو پناہ کی درخواست دی۔ اس کی وجہ امیگریشن کا وہ قانون ہے جس کا اطلاق پوری یورپی یونین پر ہوتا ہے۔ اس قانون کو ڈبلن ٹو کہتے ہیں۔ بعض تارکینِ وطن چاہتے ہیں کہ ڈبلن ٹو میں تبدیلی کی جائے، لیکن ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم، ناپولی اور ان کے حامی کہتے ہیں کہ وہ اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔