رسائی کے لنکس

شیخ حسینہ حکومت کا خاتمہ؛ کیا پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے؟


  • بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد بعض ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کا موقع ہے۔
  • شیخ حسینہ کے گزشتہ 15 سالہ اقتدار میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے بالکل قطع تعلق کیا ہوا تھا: تجزیہ کار رفیع الزمان صدیقی
  • اسلام آباد بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کو تعلقات میں بہتری کی امید کے طور پر دیکھتا ہے: ڈاکٹر قمر چیمہ
  • پاکستان کو بنگلہ دیش کے حوالے سے بہت محتاط حکمتِ عملی اپنانا ہو گی: ماہرین
  • ابھی بنگلہ دیش میں بھارت کا اثر و رسوخ مکمل ختم نہیں ہوا اور نہ ہی عوامی لیگ کی سیاسی حیثیت ختم ہوئی ہے: تجزیہ کار

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ماہرین کے مطابق پاکستان کو امید پیدا ہوئی ہے کہ خطے کے اہم اور مسلم ملک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ پاکستان مخالف بیانیہ رکھنے والی شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے سے ڈھاکہ اور اسلام آباد کے دوطرفہ امور میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں جسے خطے کی بدلتی صورتِ حال میں اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔

سن 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت خوش گوار نہیں رہے ہیں۔ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ کے ادوار میں سرد مہری عروج پر رہی۔

ہفتوں سے بنگلہ دیش میں جاری پُرتشدد مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ نے پانچ اگست کو استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ اس کے فوراً بعد بھارت روانہ ہو گئی تھیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

دفترِ خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ہم بنگلہ دیش میں حالات کے تیزی سے اور پرامن انداز میں معمول پر آنے کی امید رکھتے ہیں۔

ایسے میں تبصرے کیے جا رہے ہیں کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت کا عمل دخل کم ہو گا اور بنگلہ دیش کی نئی حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو استوار کرے گی۔

کیا تعلقات میں بہتری کی اُمید ہے؟

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد، تاریخی اعتبار سے بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔

بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر رہنے والے رفیع الزمان صدیقی کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ کے گزشتہ 15 سالہ اقتدار میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے بالکل قطع تعلق کیا ہوا تھا۔

اُن کے بقول ڈھاکہ کی خارجہ پالیسی کا جو اصول ہے ’دوستی سب سے اور بغض کسی سے نہیں‘ وہ اصل میں 'دوستی سب سے اور دشمنی صرف پاکستان' میں بدل گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رفیع الزمان نے بتایا کہ انہیں سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ دونوں کے ادوار میں پاکستانی ہائی کمیشن ڈھاکہ میں کام کرنے کا موقع ملا اور اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ کہ سکتے ہیں کہ شیخ حسینہ کے دور میں پاکستان سے متعلق حکومتی رویہ اور پالیسی بہت سخت کر دی گئی تھی۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ابھی ڈھاکہ میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی ہے اور اسلام آباد کو پالیسی بیان سے پہلے وہاں کی صورتِ حال واضح ہونے تک انتظار کرنا ہو گا۔

رفیع الزمان نے کہا کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کا بیان بھی موجودہ غیر واضح صورتِ حال کے مطابق ہے کیوں کہ ابھی یہ علم نہیں ہے کہ عبوری نظام کتنے عرصے تک رہے گا۔

'شیخ حسینہ نے عملی طور پر تعلقات ختم کر دیے تھے'

اسلام آباد کے تھینک ٹینک صنوبر انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کو تعلقات میں بہتری کی امید کے طور پر دیکھتا ہے کیوں کہ شیخ حسینہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو عملی طور پر ختم کر دیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ ہر معاملے کو 1971 کے تناظر میں دیکھتی تھیں جس بنا پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات تعطل اور سرد مہری کا شکار رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے پر آنے والا ردِعمل ایک طرح سے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا اور اس میں شیخ حسینہ حکومت سے ناراضی کا عنصر بھی تھا۔

قمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کی تبدیلی کے بعد بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات اب معمول پر آ سکیں گے اور دو طرفہ امور آگے بڑھیں گے۔

رفیع الزمان صدیقی بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ آگے کی طرف دیکھیں اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری لائیں کیوں کہ اگر ماضی میں اٹکے رہیں گے تو کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ بنگلہ دیش کی حکومتیں بھارت کے قریب رہی ہیں۔ لیکن عوامی سطح پر لوگ پاکستان سے قربت رکھتے ہیں۔

رفیع الزمان صدیقی نے بتایا کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے جب 2002 میں خالدہ ضیا کی حکومت میں ڈھاکہ کا دورہ کیا تو اس کے نتیجے میں دوطرفہ تعلقات میں ایک گرم جوشی پیدا ہوئی۔ لیکن 2006 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد صورتِ حال وہیں پر چلی گئی جہاں پہلے تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان گزشتہ 20 سال سے کوئی اعلی سطح کا دورہ نہیں ہوا ہے اور دونوں ملکوں کو چاہیے کہ خارجہ سیکریٹری کی سطح پر بات چیت کو فوری بحال کریں تاکہ مختلف شعبوں میں تعلقات میں بحالی کی راہ کھلے۔

رفیع الزمان کہتے ہیں کہ بنگلہ دیشی عوام بھارت کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور اس کے باوجود بھارت نے شیخ حسینہ کی حمایت جاری رکھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک بہت کامیاب بائیکاٹ انڈیا مہم چلائی گئی جس میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا۔

'پاکستان کو محتاط حکمتِ عملی اپنانا ہو گی'

انہوں نے کہا کہ اسی بنا پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے بھی کہا ہے کہ ہم بھارت سے خوش نہیں ہیں۔

ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کے حوالے سے بہت محتاط حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت عبوری نظام کے تحت ہے اور اگر پاکستان اس سے زیادہ قربت اختیار کرتا ہے تو آنے والی حکومت اس بات کو منفی لے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی بنگلہ دیش میں بھارت کا اثر و رسوخ مکمل ختم نہیں ہوا اور نہ ہی عوامی لیگ کی سیاسی حیثیت ختم ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش سے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے چین اور امریکہ کی مدد بھی لے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بھی بنگلہ دیش میں بھارت کے زیادہ اثر و رسوخ سے خوش نہیں اور ممکن ہے کہ اس کو روکنے کے لیے واشنگٹن اسلام آباد کو بنگلہ دیش میں کردار ادا کرنے کے لیے راستہ دے۔

فورم

XS
SM
MD
LG