ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو مؤثر اقدامات کے ذریعے نہ روکا گیا تو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بہت سے ترقی پذیر ملکوں کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان خیالات کا اظہار چھ سائنس دانوں اور معاشی ماہرین کی جانب سے مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب 'ارتھ فار آل: اے سروائیول گائیڈ فار ہیومنٹی' Earth for All: A Survival Guide for Humanity میں کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی رونمائی 20 ستمبر کو متوقع ہے، تاہم اس کے کچھ اقتباسات سامنے آئے ہیں۔
ماہرین نے کتاب میں مزید لکھا ہے کہ اب بھی عالمی برادری کے پاس موقع ہے کہ وہ عالمی درجۂ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک روکے رکھے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں عدم مساوات کا راستہ روکا جائے جس سے معاشرے انتشار کا شکار ہوتے ہیں۔
مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عدم مساوات پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے برسوں میں کئی معاشرے غیر فعال ہو جائیں گے۔
کتاب کے شریک مصنف یوریگن راندرس نے خبردار کیا کہ 'ہم ایک پہاڑ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔"
مصنفین نے تجویز دی ہے کہ دوسرے اقدامات کےساتھ ساتھ ، موجودہ عالمی اقتصادی نظام میں خامیاں دُور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ترقی کے ثمرات کو وسعت دینے اور کم آمدنی والے ملکوں کے قرضے معاف کرنے سے وہاں کی حکومتوں کو موقع ملے گا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہو سکیں۔
ماہرین نے امیر ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کم آمدنی والے ملکوں پر واجب الادا تمام قرض معاف کر دیں۔ دوسری تجاویز میں ترقی پذیر ملکوں کے درمیان تجارت کا فروغ، ماحول دوست شعبوں میں ہر برس ایک ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری، صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی میں آسانی اور صنفی مساوات شامل ہیں۔
لیکن کیا قرضے معاف کرنے سے ترقی پذیر ملکوں کے مسائل میں کوئی خاطر خواہ کمی آئے گی؟ دوطرفہ تعلقات کے تحت دیے گئے قرضوں کے ساتھ ساتھ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے قرضے بھی تو ہیں۔ اس سلسلے میں تجربات کیا بتاتے ہیں اور کیا عدم مساوات کو واقعی ختم کیا جاسکتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ اس معاملے پر رہنما کردار کو ن ادا کرے گا؟
اقوام متحدہ کے نظام اور عالمی مسائل پر گزشتہ نصف صدی سے تجزیاتی رپورٹس لکھنے والےسابق سفارت کار اور صحافی افتخار علی کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں کو مالی سہولت دینے کی خاطر قرضوں کا معاف کرنا نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کا کام ایک سہولت کار فورم کا ہے۔ اس کا اثرو رسوخ مہمات چلانے میں کار آمد ہوسکتا ہے۔
اُن کے بقول اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جی سیون ملکوں سے اس حوالے سے بات کی تھی، ان ملکوں نے ترقی پذیر ملکوں کے قرضے معاف تو نہیں کیے، لیکن واپسی کو موخر کرتے ہوئیے نیا نظام الاوقات دے دیا تھا۔
افتحار علی کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔ ان اداروں پر زور دیا جا سکتا ہے کہ غیر معمولی حالات کے پیشِ نظر کم آمدنی والے ملکوں پر واجب الادا قرضے معاف کر دیے جائیں۔ البتہ افتخار علی کہتے ہیں کہ مالیاتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں کڑی شرائط رکھی جاتی ہیں۔
افتخار علی کہتے ہیں کہ عدم مساوات اور ماحولیاتی مسائل کا ایک ساتھ ہونا دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
اُن کے بقول دنیا کے امیر ترین ملک جو زہریلی گیسوں کے اخراج کے سب سے بڑے ذمے دار ہیں، انہیں آگے آنا ہو گا تاکہ ترقی پذیر ملکوں پر اقتصادی دباؤ کم ہو اور دنیا کسی خوفناک المیے کا شکار ہونے سے بچ سکے۔
افتحار علی کہتے ہیں کہ امریکہ کو اس سلسلے میں قیادت کرنا ہو گی۔ موجودہ امریکی انتظامیہ نے شروع میں آب و ہوا میں تغیر کے مسئلے پر توجہ دیتے ہوئے ایک نمائندہ خصوصی مقرر کیا لیکن اب تک واشنگٹن وہ کردار ادا نہیں کر سکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔
وہ یاد دلاتے ہیں کہ اب سے کئی سال پہلے دنیا کے امیر ترین ممالک نے عہد کیا تھا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا میں تبدیلی کی سنگین صورت حال سے بچانے کے لیے ہر برس 100 ارب ڈالر مختص کریں گے۔ لیکن اس وعدے پر عمل نہیں ہو سکا۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ محض قرضے معاف کرنے سے عدم مساوات اور ماحولیاتی مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ایسے اقدام دوسروں پر انحصار کم کرنے کو فروغ دیں گے۔
نئی کتاب کی سفارشات کی روشنی میں وائس آف امریکہ نے عالمی بینک کے سابق مشیر اور سندھ طاس پر 12 جلدوں پر مشتمل تحقیقی رپورٹ کےمصنف طارق حسین سے بات کی۔
اُن کے بقول دنیا میں عدم مساوات کا خاتمہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ انسانی فطرت میں ہے کہ وہ مقابلے کی فضا میں زیادہ سے زیادہ دولت اور طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ماہر اقتصادیات نے پاکستان میں سیلاب اور عالمی ماحولیاتی بحران کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان، جس نے زیادہ تر قرضے مالیاتی اداروں سے لے رکھے ہیں، ان قرضوں کو معاف بھی کرا لے تو اس کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ ملک کے مسائل کا تعلق ناقص کارکردگی اور بد عنوانی سے ہے۔
گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے طارق حسین کہتے ہیں کہ جب کہ مغربی ممالک نے صنعتی ترقی حاصل کر لی، دوسری قوموں نے تیز ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے جو اس کی بنیاد فراہم کر سکتے تھے۔
پاکستان کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ملک اب بھی تعلیم کے شعبے میں سالانہ بجٹ کا صرف دو فی صد خرچ کرتا ہے۔" ایسے حالات میں قرضوں کی چھوٹ کیا کرے گی۔
طارق حسین نے کہا کہ جب تک ترقی پذیر ممالک انسانی ترقی کی راہ نہیں اپنائیں گے وہ اقتصادی ترقی اور لوگوں کی فلاح کے مقاصد حاصل نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ماحولیاتی چیلنجز کے لیے کوئی دیر پا حل تلاش کر سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب تو پوری دنیا میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کسی بھی ملک کی دیر پا اقتصادی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کا تعلق وہاں پر زیادہ سے زیادہ عوام کے تعلیم یافتہ ہونے اور جدید علوم کے حصول پر ہے۔