کیا اس وسیع و عریض کائنات میں انسان اکیلا اور تنہا ہے اورلامحدود وسعتوں میں گردش کرتے ہوئے کھربوں سیاروں اور کروڑوں کہکشاؤں میں کوئی ایسی جگہ بھی ہے جہاں انسان کا کوئی ہمسر، اور اس جیسی ذہین مخلوق موجود ہو؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب پانے کے لیے سائنس دان اور فلکیات کے ماہرین کئی عشروں سے مسلسل کوششیں کررہے ہیں اوران منصوبوں پر اب تک کھربوں ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔
فلکیات کے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ کائنات کے مختلف سیاروں سے زمین پر برس ہا برس سے ایسے ریڈیائی سگنلز موصول ہورہے ہیں ، جنہیں وہ اب تک نہ تو سمجھ سکے ہیں اورنہ ہی یہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے بھیجے جارہے ہیں ۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ سگنلز کائنات کے اندر کسی مقام پر کسی خود کار عمل سے پیدا نہیں ہورہے بلکہ انہیں پیغامات کی شکل میں زمین پر بھیجا جارہاہے۔ اوریقینناً سگنلز بھیجنے والی انسان جیسی ہی کوئی ذہین مخلوق ہے۔
کائنات اس قدر وسیع ہے کہ اس کی حدیں انسان کے علم اور اس کی سوچ کے دائرے سے کہیں دور ہیں۔ کائنات میں موجود اکثر سیارے ایسے ہیں جو ہماری زمین سے اربوں نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یعنی اگر انسان روشنی کی رفتارسے سفر کرے توبھی اسے وہاں پہنچنے کے لیے اربوں سال درکار ہیں، جو فی الحال ممکن نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے جن سیاروں کی روشنی زمین تک پہنچ رہی ہے، ان میں سے اکثر ایسے ہیں، جنہیں ختم ہوئے لاکھوں کروڑوں سال کا عرصہ گذرچکاہے۔مگر جب تک وہاں سے چلنے والی روشنی کی آخری کرن اپنا سفر مکمل نہیں کرلیتی ، وہ ہمیں دکھائی دیتے رہیں گے۔ بعض سائنس دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے کہ وہ سگنلز بھی کسی ایسے ہی سیارے سے آرہے ہوں جو ممکن ہے کہ اب اپنا وجود نہیں رکھتے۔
فلکیات کے ماہرین برسوں سےکائنات سے ملنے والے سگنلز کے مقام کا تعین کرنے اور انہیں بہتر طورپر سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم اس سلسلے میں ابھی تک کوئی ایسی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، جسے انقلابی کہا جاسکے۔
تاہم اکثر ماہرین فلکیات کو یقین ہے کرہ ارض کے باہر کائنات میں زندگی کا امکان موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس زندگی کی شکل کچھ بھی ہوسکتی ہے،ممکن ہے کہ وہ کرہ ارض پر پائے جانے والی زندگی سے بالکل مختلف ہو، اس کی ہیت کچھ اور ہو اور اسے جینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہ ہو۔
چاند پر پانی کی موجودگی کے شواہد سے ان سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی جو پانی کو زندگی کا ایک بنیادی حصہ سمجھتے ہیں۔اگرچہ چاند کے خوبصورت اور خاموش ویرانے میں اترنے والے خلابازوں کو چرخا کاتنے والی بڑھیا کا تو کہیں سراغ نہیں ملا تھا تاہم کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پانی کی دریافت کے بعد وہاں زندگی کی کسی شکل کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سرخ سیارہ مریخ نہ صرف زمین کے قریب ترین ہمسایہ ہے، بلکہ وہاں پانی کی موجودگی کا امکان، موسمی اور جغرافیائی حالات زندگی کے امکان کو تقویت دیتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مریخ کا ایک مخصوص چٹانی حصہ جسے ماہرین نے نائیلی فوسائی کا نام دیاہے، ماہرین کی توجہ مرکز بنا ہوا ہے۔وہاں پائی جانے والی چٹانوں کی ساخت آسٹریلیا کے شمال مغربی علاقے کی ان چٹانوں سے مشابہت رکھتی ہے جہاں سے زمین پر ابتدائی زندگی کے شواہد ملے تھے۔
جریدے ارتھ اینڈ پلینٹیری سائنس میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں کہا گیا ہے کہ مریخ کے نائیلی فوسائی علاقے میں زندگی کے آثار اسی معدنی حالت میں ہیں جیسا کہ آسٹریلیا سے ملے تھے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ آسٹریلیا کی قدیم ترین چٹانوں میں پائی جانے والی معدنیات اور سبز نیلگوں کائی اور مٹی کی پرتوں کی مشترکہ خصوصیات کا زندگی کی تشکیل میں اہم کردار ہے اور مریخ کے نائیلی فوسائی علاقے میں ایسی ہی چٹانوں کی نشان دہی ہوئی ہے۔ جس سے یہ امکان بڑھا ہے کہ وہاں زندگی اپنی کسی ابتدائی شکل میں محفوظ ہوسکتی ہے۔
سیٹی انسٹی ٹیوٹ کے ایک سائنس دان ایڈریان براؤن کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی یہ مخصوص شکل زندگی کی موجودگی کے باعث ہے نہ کہ جغرافیائی تغیر و تبدل کی وجہ سے۔
مریخ کے نائیلی چٹانی علاقے کی دریافت 2008ء میں ہوئی تھی اور اس وقت سے ماہرین ان کا مسلسل مشاہدہ کررہے ہیں۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ مذکورہ چٹانیں تقریباً چار ارب سال پرانی ہیں اور ان میں کاربونیٹس موجود ہیں۔
کاربونیٹ وہ کیمیائی مرکب ہے جوپانی کے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کیلسیم، لوہے یا میگنیشم کے امتزاج سےوجود میں آتا ہے ۔ یہ مرکب اب تک دریافت ہونے والی قدیم ترین حیات کی باقیات اور ان ہڈیوں میں بھی موجود ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں مریخ پر موجود تمام پانی تیزاب خصوصیات رکھتا تھا ، جو زندگی کی موجودگی کا ایک ٹھوس ثبوت ہے۔ وہاں زندگی کس شکل میں تھی، یا ممکن ہے کہ اب بھی ہو، یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔لیکن اب شاید اس را ز سے پردہ اٹھنے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔