سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیس بک اکاونٹ کی چھ جنوری کو معطلی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے فیصلے کو درست قرار دینے کے فیس بک اوورسائٹ بورڈ (جائزہ بورڈ) کے فیصلے پر بھی سیاسی، صحافتی اور آزادی اظہارکے علمبردار اداروں کی جانب سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
واشنگٹن میں زیادہ تر حلقے بدھ کے روز کی جائزہ بورڈ کی رولنگ پر ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب بورڈ میں شامل ڈنمارک کی سابق وزیراعظم سمیت کئی ارکان اپنے فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں۔
ڈنمارک کی سابق وزیراعظم ہیلے تھارننگ سمتھ نے خبررساں اداروں رائٹرز اور آکسی اوس ( (Axios سے گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بورڈ محسوس کرتا ہے کہ فیس بک نے (ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق) جو سزا تجویز کر کے ہمیں ارسال کی، اس میں فیس بک نے بہت سست روی کا مظاہرہ کیا اور یہ سزا فیس بک کی قوائد کی اپنی کتاب میں درج نہیں ہے۔
تاہم بورڈ میں شامل اراکان کی اکثریت نے بدھ کے روز فیس بک کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پوسٹیں ہٹانے اور ان کے اکاونٹ کو بلاک کرنے کی حمایت کی تھی جب کانگریس پر چھ جنوری کو ان کے حامیوں نے دھاوا بول دیا تھا اور فیس بک نے اس احتمال کے پیش نظر ان کا اکاونٹ بند کر دیا تھا کہ ان کی پوسٹوں سے تشدد کو ہوا مل سکتی ہے۔
بدھ کے روز فیس بک کے جائزہ بورڈ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ فیس بک نے لا محدود مدت کے لیے کسی کے اکاونٹ کو بند کر دینے کے فیصلے پر اپنی ہی گائیڈ لائنز پر عمل درآمد نہیں کیا لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر اس معاملے کا پھر سے جائزہ لے۔
آکسی اوس، نیویارک ٹائمز، رائٹرز اور دیگر خبررساں اداروں کے مطابق فیس بک کے اس جائزہ بورڈ کے فیصلے پر واشنگٹن میں عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔
ہاوس کی جیوڈشری کمیٹی نے اپنے فوری ردعمل میں اس کو ایک ’بدتر‘ فیصلہ قرار دیا ہے۔
ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے کئی راہنماوں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ریاست ٹیکساس سے ری پبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز نے فیس بک جائزہ بورڈ کے فیصلے کو اپنی ایک ٹویٹ میں ’’ ڈس گریس فل‘ یعنی رسوا کن فیصلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے خطرناک اثرات ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ جو لبرل سوشل میڈیا پر ٹرمپ پر پابندی پر جشن منا رہے ہیں، ان کے لیے کہنا چاہوں گا کہ اگر بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں ایک سابق صدر کا منہ بند کر سکتی ہیں تو آپ کو خاموش کرانے کے لیے انہیں کون روک سکے گا؟‘‘
نیویارک ٹائمز کے مطابق ریاسٹ ٹینیسی سے سینیٹر مارشا بلیک برن نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ آزادی تقریر کے معاملے میں خود کو ثالث سمجھتے ہیں۔
اوہائیو سے ہاؤس کے نمائندے کین بک نے اوور سائٹ بورڈ کے فیصلے کو سیاسی عصبیت پر مبنی فیصلہ ہونے کا الزام دیا ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’ فیس بک نے سیاسی تعصب کی بنیاد پر ایک من مانا فیصلہ کیا اور فیس بک کے فنڈز پر قائم جائزہ بورڈ نے اس فیصلے کی توثیق کر دی‘‘۔
بعض ڈیموکریٹس راہنماوں نے بھی اس فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں ہاوس کی انرجی کمیٹی کے چیرمین فرینک پیلن کے بیان کا حوالہ دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فیس بک کو غلط معلومات کے لیے استعمال کیا ہے لیکن وہ اس پلیٹ فارم پر اب ہیں یا نہیں، فیس بک اور اس طرح کے دیگر پلیٹ فارمز ہی اس کے لیے کوئی راستہ نکالیں گے تاکہ تقسیم کرنے والے مواد کو اجاگر کیا جا سکے اور اشتہارات کی مد میں ریونیو اکٹھا کیا جا سکے‘‘۔
فیس بک کے جائزہ بورڈ کے اراکین اپنے فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں۔
آکسی اس کے مطابق فیس بک کے جائزہ بورڈ میں شامل ڈنمارک کی سابق وزیراعظم ہیلے تھارننگ سمتھ نے کہا ہم فیس بک پر سے ذمہ داری کا بوجھ ہٹانے کے لیے نہیں بلکہ آزادانہ حیثیت میں جمع ہوئے ہیں اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ خود اور بورڈ میں شامل اراکین کی اکثیریت اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسا مواد جو تشدد کر ہوا دے سکتا ہو، اس کے ہٹانے کا فیصلہ درست ہو گا۔ ان کے بقول اگر کسی شخص یا تنظیم کے پاس اس سے بہتر کوئی تجویز ہے تو وہ ضرور سامنے لائے‘‘۔
بورڈ ہی میں شامل ایک رکن جان سیمپلز نے بھی فیصلے کو اکثریت کا فیصلہ قرار دیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پوسٹ عام آدمی کی ہو یا سیاسی و مذہبی راہنما کی، ان پر ایک جیسے اصول لاگو ہونے چاہیں۔ ان کے بقول سیاسی رہنماوں پر ذمہ داری البتہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان کی تقریر میں نقصان کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
فیس بک کے پاس کیس کو دوبارہ ریویو کے لیے چھ ماہ دینے پر جان سیمپلز نے کہا کہ عام طور پر فیس بک کا نگران عملہ سات سے تیس کے اندر اس طرح کے معاملات کا فیصلہ دیتا ہے لیکن ٹرمپ کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کی پوسٹ پر کمنٹس ہیں جس کے تجزیے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے۔
فیس بک جائزہ بورڈ کے فیصلے اور پہلی ترمیم کے تحت تقریر کی آزادی پر بحث
وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے واشنگٹن میں آزادی تقریر پر کام کرنے والے دو اداروں انسٹی ٹیوٹ فار فری سپیچ اور فریڈم فورم سے گفتگو کی ہے اور کئی سوالات کیے ہیں کہ آیا سابق صدر پر بعض سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بند ہونا تقریر کی آزادی کے خلاف ہے؟ کیا نجی پلیٹ فارمز پر امریکی آئین کی پہلی ترمیم کا اطلاق ہوتا ہے؟ کیا ایک عام شخص اور کسی صدر یا بااثر شخص کی کسی متنازع ٹویٹ پر کوئی بھی پلیٹ فارم مختلف طرح کا ردعمل دے سکتا ہے؟ آئیے ان کا ردعمل جانتے ہیں۔
ڈیوڈ کیٹنگ، صدر انسٹی ٹیوٹ فار فری سپیچ (واشنگٹن ڈی سی)
’’ میرے خیال میں فیس بک کے اوورسائٹ (جائزہ بورڈ) کا فیصلہ درست ہے کہ فیس بک (سابق صدر ٹرمپ کے اکاونٹ پر) غیر معینہ مدت تک معطلی نافذ کرتے ہوئے اپنے ہی راہنما اصولوں پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔ میرے خیال میں انہوں نے اچھا کیا جو فیس بک سے کہا ہے کہ وہ اپنا ردعمل دیں۔
میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ عمل بہت وقت لے رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ فیصلہ اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ آنا چاہیے جتنا وقت جائزہ بورڈ نے لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جائزہ بورڈ کو چھ ماہ کی بجائے کم وقت پر محیط ڈیڈ لائن دینی چاہیے کہ وہ اس معاملے پر نظر ثانی کرتے اور فیصلہ دیتے۔‘‘
کیا کسی بھی صارف کی پوسٹ کو بلاک کرنا آزادی اظہار کی داعی پہلی ترمیم کے منافی ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈیوڈ کیٹنگ نے کہا
’’ میرے خیال میں فرسٹ امینڈمینٹ (پہلی ترمیم) کا اطلاق فیس بک پر نہیں ہوتا۔ اس کا اطلاق حکومت پر ہوتا ہے۔ فیس بک کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ کس طرح کی تقریر اس کے پلیٹ فارم سے نشر ہو سکتی ہے اور کس قسم کی تقریر نشر نہیں ہو سکتی۔ اور پھر لوگ سوچ سکتے ہیں کہ آیا ان کو فیس بک استعمال کرنا ہے یا نہیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ فیس بک کو واضح گائیڈ لائنز کو اجاگر کرنا چاہیے کہ لوگوں کو پتا ہو کہ جب وہ یہ پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں تو ان کو کس چیز سے سابقہ ہو سکتا ہے۔ یہ صارف کوئی عام شخص ہو یا امریکہ کا صدر، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ بعض حالات میں وہ اپیل کر سکتے ہیں۔ اور اس اپیل پر فیصلے تیزی سے ہونے چاہیئں نہ کہ اس پر مہینوں لگ جائیں۔
اگر صدر ٹرمپ جنہوں نے پیغام رسانی کے لیے اپنی ویب سائیٹ لانچ کر دی ہے ، ان کے فالوورز ان کے پیغامات کو فیس بک پر شئر بھی کر سکتے ہیں تو اس پابندی کا کیا مطلب ہے، کیونکہ پیغام تو بہرحال ان کا انہی پلیٹ فارمز پر جا رہا ہے؟
اس پہلو پر اپنے رائے دیتے ہوئے ڈیوڈ کیٹنگ نے کہا ’’ میرے خیال میں کسی کی پوسٹ شئر کرنے کا مطلب وہ نہیں ہو سکتا جو براہ راست اپنے فالوورز سے مخاطب ہونے کا ہوتا ہے۔ غالباً ان (سابق صدر ٹرمپ) کے تییس اکتیس ملین فالوورز ہیں اس پلیٹ فارم پر۔ اگر کوئی ان کا پیغام فیس بک پر شئیر کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ ان کے اکتیس ملین فالوورز تک پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا یہ مختلف باتیں ہیں‘‘۔
لیکن اگر پیغام نامناسب ہو کیا پھر بھی اس کو ہٹایا نہیں جانا چاہیے بھلے یہ پیغام کوئی شخص خود دے یا اس کا کوئی فالوور شیئر کرے؟
اس بارے میں ڈیوڈ کیٹنگ کہتے ہیں ’’ جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پوسٹیں ہٹانا اور ان کو غیر معینہ مدت کے لیے ان کے اکاؤنٹ کو معطل کر دینا، اس سے کہیں غلط رویہ تھا جو سابق صدر کی پوسٹوں میں نظر آتا تھا‘‘
جوناتھن تھامپسن، واشنگٹن میں قائم ادارے فریڈم فورم کے وائس پریزیڈینٹ ہیں۔
وائس آف امریکہ کے سوالات کے تحریری جواب میں کہتے ہیں،
’’ وہ لوگ جو فیس بک کی جانب سے پوسٹوں یا مواد کو ہٹانے یا ان کو شائع کرنے کی اجازت دینے کو ناپسند کرتے ہیں، وہ اس بارے میں حکومت سے سوال کر سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کس قسم کی تقریر کو واضح طور پر تحفظ دیں یا کس قسم کی تقریر کو محدود کریں۔ لیکن ان کے بقول پہلی ترمیم سے متعلق حکومتی ضابطے ہماری تاریخ میں ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں اور ایک بار پھر خطرناک اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔‘‘
جوناتھن تھامپسن نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک تازہ ترین بلاگ بھی شئر کیا ہے جو فریڈم فورم کی ویب سائٹ نے شائع کیا ہے۔ اس مضمون کے مصنف جین پولیسنسکی فریڈم فورم میں پہلی ترمیم پر سینئر فیلو ہیں۔
جین پولیسنسنکی لکھتے ہیں کہ فیس بک کی ’’ سپریم کورٹ‘‘ (مطلب جائزہ بورڈ) نے بدھ کے روز سابق صدر ٹرمپ پر چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت پر حملے کے دوران ان کی پوسٹوں کے سبب ان کا اکاونٹ بلاک کرنے کے فیصلے کی توثیق کی ہے تاہم اب سوشل میڈیا کو وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ سزا کب تک نافذالعمل رہے گی؟
جین کے مضمون کے مطابق اگر ہم یہ قبول کر لیں کہ ٹوئٹر یا فیس بک پر سابق صدر کے اکاونٹس کا بلاک ہونے کا پہلی ترمیم (آزادی اظہار سے متعلق امریکی آئین میں پہلی ترمیم) سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ دونوں حکومتی نہیں پرائیویٹ کمپنیاں ہیں۔ لیکن فیس بک کے جائزہ بورڈ نے جو فیصلہ کیا ہے، ان کے الفاظ میں، یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہوگا کہ پہلی ترمیم نجی ویبسائٹس پر کس انداز میں نافذ ہو سکتی ہے۔ یہ یقینی ہے کہ یہ فیصلہ اس بحث کو جنم دے گا کہ آیا حکومت کے پاس سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر زیادہ کنٹرول ہونا چاہیے یا نہیں۔
جین پولیسنسکی اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ پہلے ہی سوشل میڈیا آپریشنز کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات شروع ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق، ریاست فلوریڈا میں ایک متفقہ طور پر منظور ہونے والا قانون سوشل میڈیا کمپنیوں کو کسی بھی سیاستدان کے اکاونٹ کو مستقل طور پر بند کرنے سے روکنے کا متقاضی ہے۔ اور اسی طرح کے قوانین، مصنف کے مطابق، دیگر ریاستوں میں بھی زیرالتوا ہیں۔
جین پولیسنسکی ان الفاظ کے ساتھ اپنا مضمون ختم کرتے ہیں کہ پہلی ترمیم کے تحت آزادی تقریر کے بارے میں اکسیویں صدی میں جو لکیریں کھینچی جا رہی ہیں، ٹرمپ سے متعلق فیصلہ اس ضمن میں پہلی زوردار آواز ہے جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی ہے، کم از کم آن لائن دنیا میں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے بظاہر غیر جانبدار نگران بورڈ نے گزشتہ روز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فیس بک اور انسٹا گرام پر کچھ بھی پوسٹ کرنے پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ تاہم پینل نے اس امکان کو کو رد نہیں کیا کہ سابق صدر اس مقبول ویب سائٹ پر واپس آ سکتے ہیں جہاں کروڑوں صارفین موجود ہیں۔ پینل نے کہا کہ فیس بک کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ لا محدود مدت اور معیار سے عاری لا متناہی معطلی کی سزا مسلط کرے۔