|
اسلام آباد _پاکستان نے کہا ہے کہ وہ شام کی وحدت، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا حامی ہے اور اس سے متعلق اس کے اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
شام میں تیزی سے بدلتی صورتِ حال اور اس کے خطے اور پاکستان و شام تعلقات پر اثرات کے بارے میں ہم نے مشرقِ وسطیٰ کے ماہرین سے بات کی ہے۔
شام میں پاکستان کے سابق سفیر وحید احمد کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے دمشق کے ساتھ تعلقات عوامی بنیادوں پر استوار ہیں اور اسی لیے سخت ترین حالات میں بھی دمشق میں موجود پاکستانی سفارت خانہ بند نہیں ہوا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام کی موجودہ صورتِ حال کا حل وسیع تر سیاسی عمل ہے جس میں تمام شراکت دار شامل ہوں۔
کئی برسوں کی خانہ جنگی اور اقتدار میں رہنے والے بشار الاسد کو باغیوں کی پیش قدمی کے باعث آٹھ دسمبر کو اقتدار چھوڑ کر ملک سے منتقل ہونا پڑا تھا۔
بشار الاسد اس وقت روس میں پناہ لیے ہوئے ہیں جب کہ باغی اقتدار سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ شام میں آنے والی تبدیلی کے نتیجے میں اسلام آباد کے دمشق سے تعلقات کس سطح پر قائم ہوں گے۔
وحید احمد نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کے شام کے ساتھ تعلقات میں زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوگی اور اگر دوطرفہ تعلقات میں کوئی تعطل آتا بھی ہے تو وہ وقتی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ شام کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا دار و مدار اس بات پر ہوگا کہ اس کی وحدت برقرار رہے۔ ان کے بقول شام میں عراق یا لبنان کی طرز پر حکومت کا فارمولا ہی اس کی وحدت کے لیے بہتر رہے گا جس میں تمام مذہبی و علاقائی آبادیوں کی شمولیت ہو۔
تجزیہ کار عامر غوری کے خیال میں پاکستان کے شام کے ساتھ تعلقات کافی عرصے سے سرد مہری کا شکار ہیں جس کی شکایت اسلام آباد میں شامی سفیر بھی کرتے رہے ہیں۔
ان کے بقول دونوں ملکوں کے عوام کی سطح پر تعلقات مضبوط ہیں کیوں کہ شامی عوام ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہونے والی جنگوں میں پاکستان ایئر فورس کی مدد کو آج تک نہیں بھلا پائے ہیں۔
شام کی مخدوش صورتِ حال کے پیش نظر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پاکستانیوں کے محفوظ انخلا کی ہدایت کی ہے۔
سابق سفارت کار وحید احمد کہتے ہیں کہ شام میں پاکستانی زائرین کی بڑی تعداد ہر سال پیغمبر اسلام کی نواسی زینب کے روضے اور دیگر مذہبی مقامات جاتی ہے اور امن و امان میں بہتری کے سبب حالیہ برسوں میں یہ تعداد سالانہ تین لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دمشق ایئر پورٹ کی بندش کی وجہ سے فی الوقت زائرین کو واپس لانا مشکل ہے۔
دفترِ خارجہ کے مطابق شام میں موجود پاکستانی محفوظ ہیں اور انہیں نقل و حرکت میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ شام میں پھنسے زائرین سے رابطے میں ہے اور دمشق ایئر پورٹ فعال ہوتے ہی انہیں وطن واپس لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
تجزیہ کار عامر غوری کے مطابق پاکستان کی فی الوقت ترجیح وہاں مقیم پاکستانیوں اور پاکستانی زائرین کا باحفاظت انخلا ہے۔ اس ضمن میں حکومتِ پاکستان نے ترکیہ کی حکومت سے مدد بھی مانگ رکھی ہے۔
عامر غوری نے کہا کہ شام کے سیاسی بحران پر پاکستان عجیب کشمکش میں مبتلا ہے کہ وہ آیا امریکی اتحادی کے ساتھ کھڑا ہو یا چین اور روس کے ساتھ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ ایران اور ترکیہ میں کس کہ طرف اپنا وزن ڈالے۔
شام کی خانہ جنگی کے دوران ایران اور روس صدر بشارالاسد کی حکومت کی حمایت کرتے رہے ہیں جب کہ ترک حکومت باغی فورسز کی حامی رہی ہے۔
'جہاں بحران ہوتا ہے وہاں مواقع پیدا ہوتے ہیں'
شام کی صورتِ حال پر عامر غوری کا خیال ہے کہ پاکستان کو مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے بصورتِ دیگر اسلام آباد کے لیے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں بحران ہوتا ہے وہاں مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں اور پاکستان کے لیے بھی یہی صورتِ حال ہے کہ وہ خلیج کی ریاستوں کی عسکری تربیت اور اسلحہ کی فراہمی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
شام میں پاکستان کے سفیر رہنے والے وحید احمد کہتے ہیں کہ شام میں آنے والی تبدیلی اچانک رونما نہیں ہوئی بلکہ حکومت مخالف گروہ یہ سرگرمیاں وقتاً فوقتاً کرتے رہے ہیں جن کی شدت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بشار الاسد نے ایک وقت میں روس اور ایران کی مدد سے حکومت مخالف گروہوں کو کافی پیچھے دھکیل دیا تھا اور وہ سرحد پار پناہ لینے پر مجبور تھے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ بشار الاسد نے سیاسی حل تلاش نہیں کیا اور حکومت مخالف گروہوں کو سرحد پار سے مدد ملتی رہی جس نے انہیں دوبارہ منظم اور فعال کردیا۔
وحید احمد نے کہا کہ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے کمزور ہونے اور روس و ایران کی عملی مدد نہ ہونے کے سبب بشار الاسد کی فوج باغی گروہوں کا مقابلہ کیے بغیر ہی شکست کھا گئی۔
عامر غوری نے کہا کہ 'تحریر الشام' نامی باغیوں کا گروپ ایک سنی گروپ ہے جو القاعدہ جیسی جماعتوں سے رابطے میں رہا ہے اور اسے بلواسطہ ترکی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
شام سے پاکستانیوں کی واپسی کے لیے اقدامات
پاکستان کی حکومت نے شام سے شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کے دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ لبنان کی حکومت نے شام میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی واپسی میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیر کی شب لبنان کے ان کی وزیرِ اعظم نجیب میقاتی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی جس میں بیروت کے راستے شام میں پھنسے پاکستانیوں کے فوری انخلا کی درخواست کی گئی۔
شہباز شریف نے کابینہ کے ارکان کو آگاہ کیا کہ لبنانی وزیرِ اعظم نے پاکستانیوں کے انخلا میں تعاون کا یقین دلایا ہے اور بہت جلد بیروت ایئرپورٹ سے پاکستانیوں کا انخلا شروع ہو گا۔
فورم