بھارت کی فوج کے اس دعوے کو کشمیری نوجوانوں کے والدین نے مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سرینگر کے مضافات میں جھڑپ کے دوران مارے جانے والے نوجوان عسکریت پسند تھے۔
فوج کے دعوے کے مطابق جموں و کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے مضافات لاوے پورہ میں منگل کی شام شروع ہونے والی جھڑپ بدھ کو صبح ساڑھے گیارہ بجے تین عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر ختم ہوئی۔
ادھر مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک عسکریت پسندوں کے، جن کی شناخت اعجاز مقبول گنائی، اطہر مشتاق وانی اور زبیر احمد لون کے طور پر کی گئی، زیر استعمال ایک اے کے 47 رائفل، دو پستول اور دستی بم برآمد ہوئے ہیں۔
سیکیورٹی اداروں کے دعوے کے خلاف ان نوجوانوں کے اہلِ خانہ نے سرینگر پولیس کنٹرول روم کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور فوج و پولیس کے ان دعووٴں کو جھٹلاتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ فرضی جھڑپ تھی جس میں ان کے معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔
لاوے پورہ میں مشتعل ہجوم اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، جس میں پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔ بعد ازاں حکام نے تناوٴ کے پیشِ نظر جنوبی کشمیر کے چند اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز حفظِ ماتقدم کے طور پر معطل کر دیں۔
دہشت گرد حملے کا منصوبہ
بھارت کی فوج کے شورش مخالف فورس کے کمانڈر ایچ ایس ساہی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ جھڑپ کے دوران جن تین دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا، انہوں نے سرینگر، بارہ مولہ شاہراہ پر سیکیورٹی فورسز کے خلاف بڑی کارروائی کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ راشٹریہ رائفلز کو ایک مکان میں ان کی موجودگی کی اطلاع ملی جس پر آپریشن شروع کیا گیا۔
پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ اور بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی نے بھی اس آپریشن میں حصہ لیا تھا۔
فوجی افسر کے مطابق گزشتہ کئی دنوں سے انٹیلی جنس ذرائع سے مسلسل یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ دہشت گرد سرینگر، بارہمولہ شاہراہ پر موجود ہیں۔ منگل کو معلوم ہوا کہ دہشت گردوں کا ایک گروپ لاوے پورہ میں نورا اسپتال کے بالمقابل ایک مکان میں موجود ہے۔ اسی مکان کو گھیرے میں لیا گیا۔
ہتھیار ڈالنے کی پیشکش مسترد
فوجی افسر نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے دوران مکان میں محصور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے پیشکش ٹھکرا دی اور فائرنگ شروع کر دی۔
فوجی افسر نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک بالکل صاف و شفاف آپریشن تھا جس میں سیکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
'وہ دہشت گرد نہیں، طالب علم تھے'
دوسری جانب مشتبہ عسکریت پسندوں کی لاشوں کی تصویریں جونہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ان کے اہل خانہ سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں واقع پولیس کنٹرول روم کے باہر جمع ہو گئے۔
مقابلے میں ہلاک ہونے والے 24 سالہ اعجاز مقبول گنائی کے دادا بشیر احمد گنائی نے صحافیوں کو بتایا کہ آپ میرا یقین کریں وہ کل گھر پر موجود تھا۔ ہم نے صبح ساڑھے دس بجے اکٹھا چائے بھی پی تھی۔ پھر پتا نہیں وہ ان کے ہتھے کیسے چڑھ گیا۔
انہوں نے سیکیورٹی فورسز پر الزام لگایا کہ وہ ضرور اُسے کہیں سے اٹھا کر لے گئے تھے اور پھر فرضی جھڑپ میں اسے بے دردی سے قتل کر دیا۔ وہ ایک طالب علم تھا۔ عسکریت پسند ہرگز نہیں تھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ بہتر ہو گا وہ اب مجھے بھی گولی مار دیں۔
اعجاز مقبول گنائی کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ سے تھا اور وہ ایک پولیس اہلکار محمد مقبول گنائی کا بیٹا تھا۔
پلوامہ ہی سے تعلق رکھنے والے اطہر مشتاق وانی کے گھر والوں نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ وہ کسی عسکری تنظیم سے وابستہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی پر تشدد یا غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تھا۔
اُن کے ایک قریبی رشتے دار نے کہا کہ وہ 11ویں جماعت کا طالب علم تھا اور منگل کو اچانک لاپتا ہو گیا تھا۔
مقابلے میں مارے گئے 22 سالہ زبیر احمد کے بارے میں اُس کے رشتے داروں کا کہنا تھا کہ وہ پیشے سے ایک معمار یعنی مستری تھا۔
نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں تھے
جموں و کشمیر پولیس نے مارے گئے افراد کے بارے میں ان کے خاندان والوں کے ان دعووٴں اور الزامات کے جواب میں کہا کہ ان تینوں کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
پولیس کے مطابق دو نوجوانوں کے بارے میں مصدقہ اطلاعات تھیں کہ وہ دہشت گردوں کے اوور گراؤنڈ ورکرز یا اعانت کار تھے اور یہ اطلاع بھی ہے کہ ان کے ساتھ مارا جانے والا تیسرا نوجوان حال ہی میں منسلک ہوا تھا۔
پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ مارے گئے دہشت گردوں میں سے ایک عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے ایک اعلیٰ کمانڈر رئیس کاچرو کا، جسے 2017 میں ہلاک کیا گیا تھا، رشتے دار تھا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ عام طور پر والدین کو بچوں کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات نہیں ہوتیں۔ کئی اوور گراؤنڈ ورکرز دستی بموں کے دھماکے کرنے اور فائرنگ کر کے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں اور اپنے افراد خانہ کے ساتھ معمول کے مطابق شامل ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے اس کی ایک مثال پُلوامہ کے ایک ایسے طالب علم کی دی جو سرینگر کے ایک کوچنگ سینٹر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا لیکن اُسے سی سی ٹی وی کی فوٹیج کی مدد سے دستی بم کے ایک حملے میں ملوث ہونے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ اُس کے والدین اُس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں قطعی نہیں جانتے تھے۔
'والدین بچوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں'
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) وجے کمار نے کہا ہے کہ والدین سے استدعا ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس لاوے پورہ جھڑپ کی تحقیقات کر رہی ہے اور پوری طرح چھان بین کے بعد بہت جلد نتیجہ اخذ کرے گی۔
غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی نے واقعہ کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور جموں و کشمیر کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی پوزیشن پر واضح کرے۔
مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ مارے گئے نوجوانوں کے خاندانوں نے چونکہ سیکیورٹی فورسز کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ عسکریت پسند تھے۔ لہٰذا معاملے کی ہائی کورٹ کے کسی موجودہ جج سے تحقیقات کرانا ناگزیر ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے اس ہفتے کے شروع میں ایک فوجی افسر اور اس کے دو سویلین شراکت داروں کے خلاف تین مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد انہیں دہشت گرد قرار دینے کے سلسلے میں فردِ جرم عدالت میں دائر کی تھی۔
ضلع راجوڑی سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں محمد امتیاز، محمد ابرار اور ابرار احمد خان کو، جن کی عمریں 16 اور 25 سال کے درمیان تھیں، 18 جولائی کو ضلع شوپیاں کے امشی پورہ علاقے میں ہلاک کیا گیا تھا۔
پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تینوں نوجوان شوپیاں کے ایک باغ میں مزدوری کرنے گئے تھے، تاکہ اس آمدن سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ لیکن بھارت کی فوج نے انہیں فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا اور پھر انہیں غیر شناخت شدہ دہشت گرد قرار دے دیا۔
پولیس کی فردِ جرم کے مطابق انہیں بھارت کی فوج کے ایک کیپٹن نے دو مقامی شہریوں کے ساتھ سازش کر کے قتل کیا اور پھر غیر قانونی ہتھیار اور دیگر چیزیں مزدوروں کی لاشوں کے پاس پلانٹ کیں اور ان کی شناخت کو مسخ کیا۔
بھارت کی فوج نے یقین دہانی کرائی ہے کہ فرضی جھڑپ میں ہلاک کیے جانے کے معاملے میں انصاف ہو گا۔
فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ ملوث فوجی افسر کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں تفصیلات عنقریب منظرِ عام پر لائی جائیں گی۔