دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی ترسیل پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس اتوار کو فرانس کے شہر پیرس میں شروع ہوا جس میں پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا جو اس ضمن میں قابل ذکر اقدام نہیں کر رہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس 24 سے 29 جون تک جاری رہے گا اور اس چھ روز اجلاس کے دوران دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے رواں سال فروری میں پیرس میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے وضع کردہ لائحہ عمل کے تحت عالمی سطح پر کئے گئے اقدامات کا جا ئزہ لیا جائے گا۔
اس مجوزہ ایکشن پلان کے تحت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے پاکستان کو بھی موثر اقدامات کرنے کا کہا تھا اور ایک پاکستانی وفد اس جلاس میں شرکت کر کے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مجوزہ پلان آف ایکشن کے تحت کیے گئے اقدامات سے آگاہ کرے گا جس کا جائزہ ہفتے کو اسلام آباد میں وزیر خزانہ شمشاد اختر کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران لیا گیا۔
وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اس موقع پر وزیر خزانہ نے دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کو روکنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
وزیر خزانہ شمشاد اختر کا مزید کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے رقوم کی فراہمی کو روکنے کے لیے اسٹیٹ بنک، دیگر بنکوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مربوط تعاون کو مزید بہتر کیا گیا ہے۔
اقتصادی امور کے ماہر اور سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے وسائل کی فراہمی کو روکنے کے لیے وضع کیے گئے قوانین پر موثر عمل درآمد کیا ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا، "پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے۔ پاکستان کا مالیاتی کنڑول سسٹم بہت بہتر ہے اور اس کو مزید بہتر کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے گئے اور میرے خیال میں اگر وہاں (فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں) میرٹ پر فیصلہ ہو گا تو وہ پاکستان کے اقدامات کو قبول بھی کریں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایف اے ٹی ایف پاکستان کی طرف سے کئے گئے اقدامات پر مطمئن نا ہوئی اور پاکستان کو واچ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کی معیشت اور اس کے تشخص کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
حالیہ سالوں میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان پر بعض شدت پسند تنظمیوں کے خلاف موثر کارروائی نا کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ تاہم حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے بین الاقوامی برادری کے اس حوالے سے تحفظات دور کرنے کیلئے کئی موثر اقدامات کیے اور ان کے بقو ل انہیں سراہا جانا چاہیئے۔