برطانیہ کی شدت پسند مسلمان تنظیموں نے 30نومبر کو اسلام آباد کی لال مسجد میں نفاذ شریعہ کانفرنس کے انعقاد اور اس موقع پر ملالہ یوسف زئی، پاکستان کے بانیوں اور لبرل سیاستدانوں کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
شدت پسند پاکستانی نژاد برطانوی وکیل، انجم چودھری نے برطانوی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سوات میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی 15سالہ ملالہ کو عاقل اور بالغ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نفاذ شریعت کے خلاف آواز اٹھانے، لبرل اسلام کی وکالت اور امریکی صدر براک اوباما کو اپنا آئیڈیل قرار دینا ملالہ کے غیر شرعی اقدامات تھے۔ لہٰذا، ملالہ پر حملہ ایک شرعی اور قدرتی امر تھا۔
انجم چودھری نے پاکستانی حکمرانوں اور ملالہ کو غیر مسلموں کا ساتھی قرار دیتے ہوئے اُن کے خلاف 30نومبر کو فتویٰ جاری کرنے کا بھی اعلان کیا۔
برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی انٹرویو میں شدت پسند برطانوی تنظیموں کے لال مسجد اسلام آباد میں’ شریعہ فو ر پاکستان کانفرنس‘ کے انعقاد کے اعلان پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے معاملے کو بارہا اٹھانے کے باوجود برطانوی حکومت کا اقدامات نہ کرنا اُن کی سمجھ سے بالا تر ہے۔
واجد شمس الحسن کےبقول، وہ متواتر اِن مسائل کی طرف برطانوی حکومت کی توجہ مبذول کراتے رہے ہیں۔ مغرب پاکستان پر دنیا میں شدت پسندی کے فروغ کے الزامات لگاتا رہا ہے، لیکن، اِس بات سے تو اُنھیں یہ دِکھ رہا ہے کہ برطانیہ پاکستان میں شدت پسندوں کو بھجوا رہا ہے، ’جس سے یقیناً پاکستان کے حالات خراب ہوں گے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جو کہ وہ برطانوی حکومت کے ساتھ اٹھائیں گے‘۔
پاکستانی ہائی کمشنر کے مطابق، پاکستان اور اُس کے عوام ملالہ یوسف زئی کے خلاف شدت پسند تنظیموں کے فتوے برداشت نہیں کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’ ملالہ جدید پاکستان کی علامت اور قومی ہیرو کا درجہ رکھتی ہیں۔ چند شدت پسند عناصر ایسے فتووں کے ذریعے اپنے سخت گیر اسلام کا غلبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ فتوے اس سے زیادہ کچھ معنی نہیں رکھتے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستانی قوم یہ سب کچھ برداشت کرلے گی‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’حزب التحریر المہاجرون‘ پر پاکستان میں پہلے ہی سے پابندی عائدہے۔ پاکستانی حکومت اِن تنظیموں کے خلاف دہشت گردی کے قوانین کے تحت کارروائی کرے گی، کیونکہ یہ تنظیمیں پاکستان میں نفرتیں پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے برطانوی وزیر برائے کمیونٹیز لارڈ طارق احمد نے کہا کہ برطانوی حکومت ایک عرصے سے اِن شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتی آئی ہے۔
برطانوی اپوزیشن لیبر پارٹی کے رہنما لارڈ نذیر احمد نے برطانوی حکومت سے شدت پسند تنظیموں کے سربراہان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
شدت پسند پاکستانی نژاد برطانوی وکیل، انجم چودھری نے برطانوی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سوات میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی 15سالہ ملالہ کو عاقل اور بالغ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نفاذ شریعت کے خلاف آواز اٹھانے، لبرل اسلام کی وکالت اور امریکی صدر براک اوباما کو اپنا آئیڈیل قرار دینا ملالہ کے غیر شرعی اقدامات تھے۔ لہٰذا، ملالہ پر حملہ ایک شرعی اور قدرتی امر تھا۔
انجم چودھری نے پاکستانی حکمرانوں اور ملالہ کو غیر مسلموں کا ساتھی قرار دیتے ہوئے اُن کے خلاف 30نومبر کو فتویٰ جاری کرنے کا بھی اعلان کیا۔
برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی انٹرویو میں شدت پسند برطانوی تنظیموں کے لال مسجد اسلام آباد میں’ شریعہ فو ر پاکستان کانفرنس‘ کے انعقاد کے اعلان پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے معاملے کو بارہا اٹھانے کے باوجود برطانوی حکومت کا اقدامات نہ کرنا اُن کی سمجھ سے بالا تر ہے۔
واجد شمس الحسن کےبقول، وہ متواتر اِن مسائل کی طرف برطانوی حکومت کی توجہ مبذول کراتے رہے ہیں۔ مغرب پاکستان پر دنیا میں شدت پسندی کے فروغ کے الزامات لگاتا رہا ہے، لیکن، اِس بات سے تو اُنھیں یہ دِکھ رہا ہے کہ برطانیہ پاکستان میں شدت پسندوں کو بھجوا رہا ہے، ’جس سے یقیناً پاکستان کے حالات خراب ہوں گے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جو کہ وہ برطانوی حکومت کے ساتھ اٹھائیں گے‘۔
پاکستانی ہائی کمشنر کے مطابق، پاکستان اور اُس کے عوام ملالہ یوسف زئی کے خلاف شدت پسند تنظیموں کے فتوے برداشت نہیں کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’ ملالہ جدید پاکستان کی علامت اور قومی ہیرو کا درجہ رکھتی ہیں۔ چند شدت پسند عناصر ایسے فتووں کے ذریعے اپنے سخت گیر اسلام کا غلبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ فتوے اس سے زیادہ کچھ معنی نہیں رکھتے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستانی قوم یہ سب کچھ برداشت کرلے گی‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’حزب التحریر المہاجرون‘ پر پاکستان میں پہلے ہی سے پابندی عائدہے۔ پاکستانی حکومت اِن تنظیموں کے خلاف دہشت گردی کے قوانین کے تحت کارروائی کرے گی، کیونکہ یہ تنظیمیں پاکستان میں نفرتیں پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے برطانوی وزیر برائے کمیونٹیز لارڈ طارق احمد نے کہا کہ برطانوی حکومت ایک عرصے سے اِن شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتی آئی ہے۔
برطانوی اپوزیشن لیبر پارٹی کے رہنما لارڈ نذیر احمد نے برطانوی حکومت سے شدت پسند تنظیموں کے سربراہان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔