رسائی کے لنکس

لاہور ہائی کورٹ: فواد حسن فواد کی ضمانت منظور، رہا کرنے کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں دو رُکنی بینچ نے ایک، ایک کروڑ کے دو مچلکوں کے عوض فواد حسن فواد کو رہا کرنے کا حکم دیا۔

فواد حسن فواد کو چھ جولائی 2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے حراست میں لیا تھا۔ ان پر آمدن سے زائد اثاثہ جات اور آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دینے کے لیے اثر و رُسوخ استعمال کرنے کے الزامات تھے۔

لاہور سے ہمارے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق منگل کو لاہور ہائی کورٹ میں دورانِ سماعت فواد حسن فواد کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ گرفتاری کے وقت نیب نے اربوں کی کرپشن کا الزام لگایا۔ لیکن ریفرنس صرف 108 ملین روپے کا دائر کیا۔

فواد حسن فواد کے ایک اور وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 2018 میں اُن کے موکل کو گرفتار کیا گیا لیکن ابھی تک فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔

درخواست ضمانت میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ تفتیش کی بنیاد پر ضمانت خارج ہوتی رہی لیکن اب ریفرنس آ گیا ہے، لہذٰا ضمانت منظور کی جائے۔

یاد رہے کہ فواد حسن فواد کو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا منظور نظر بیورو کریٹ سمجھا جاتا تھا۔ وہ پنجاب میں بھی اہم عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔

فواد حسن فواد کے وکلا نے دلائل دیے کہ اُن کے نام کوئی جائیداد نہیں ہے۔

پراسیکیوٹر نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ فواد حسن فواد نے اپنے نام کچھ نہیں رکھا۔ سب کچھ رشتہ داروں کے نام ہے۔

جسٹس طارق عباسی نے استفسار کیا کہ اگر سب کچھ رشتہ داروں کے نام ہے تو نیب نے بے نامی دار تین شریک ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ گرفتاری کے وقت ملزم کے 14 اکاؤنٹس لکھے گئے لیکن ریفرنس میں ایک کا بھی ذکر نہیں۔

عدالت نے پوچھا کہ فواد حسن فواد کی اہلیہ اور بھائی نے نیب کو کیا بیان دیا؟ جس پر نیب کے وکیل نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے خود کو ہاؤس وائف بتایا ہے۔

جسٹس طارق عباسی نے ریمارکس دیے کہ جس کے نام کچھ نہیں اُسے گرفتار کر رکھا ہے۔ جس کے نام سب کچھ ہے اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

عدالت نے درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے فواد حسن فواد کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔

لاہور کی مقامی عدالت نے فروری 2019 میں آشیانہ کیس میں فواد حسن فواد کی ضمانت منظور کر لی تھی۔ تاہم آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں اُن کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ نے منظور کی ہے۔

فواد حسن فواد پر الزامات کیا تھے؟

نیب کی جانب سے دوران تفتیشن فواد حسن فواد پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا کہ اُنہوں نے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر لاہور میں نو سی این جی اسٹیشنز کھولنے کی منظوری دی۔

اُن پر یہ بھی الزام تھا کہ اُنہوں نے اجازت کے بغیر ایک نجی بینک میں ملازمت کی۔

فواد حسن فواد پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنہوں نے بطور سیکریٹری عمل درآمد، پنجاب 2013 میں لاہور کے برکی روڈ پر کم آمدنی والے افراد کے لیے رہائشی منصوبے 'آشیانہ اقبال ہاؤسبنگ' کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پر منسوخ کیا۔ جس سے نہ صرف پنجاب حکومت نے لطیف اینڈ سنز نامی کمپنی کو جرمانہ ادا کیا بلکہ اس سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہونے سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

نیب کا یہ بھی الزام تھا کہ اُنہوں نے بطور سیکریٹری صحت پنجاب مہنگے موبائل ہیلتھ یونٹس خرید کر سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا۔

فواد حسن فواد پاکستان کی وفاقی حکومت میں 22 ویں گریڈ کے افسر تھے۔ اس سے قبل وہ پنجاب حکومت میں بھی مختلف ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ اُنہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف کے قابل اعتماد افسران میں شمار کیا جاتا تھا۔

فواد حسن فواد پنجاب کے سیکریٹری صحت، وزیر اعلٰی پنجاب کے سیکریٹری عمل درآمد سمیت دیگر اعلٰی عہدوں پر بھی فائز رہے۔

پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف نے فواد حسن فواد کی رہائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک اور بے قصور کو انصاف مل گیا۔

XS
SM
MD
LG