|
اسلام آباد -- افغانستان میں طالبان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے حملے کے جواب میں پاکستان کی سرحدی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
بی بی سی پشتو سروس سے بات کرتے ہوئے ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت اشتعال انگیزی پر یقین نہیں رکھتی لیکن حالیہ حملے پاکستانی اقدامات کا جواب تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان جنگ کو مزید طوالت دینے کے خواہش مند نہیں ہیں اور موجودہ کشیدگی کو مزید بڑھانے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔
افغان طالبان نے کہا تھا کہ گزشتہ منگل کی شام پکتیکا کے علاقے برمل میں پاکستانی فورس کی جانب سے بمباری کی گئی۔ طالبان وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا تھا کہ بمباری میں بچوں سمیت عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا اور مجموعی طور پر 46 افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس بارے میں کہا تھا کہ پاکستان ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد گروہوں سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتا ہے۔
پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع نے پکتیکا میں چار مقامات پر بمباری کی تصدیق کی تھی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ عسکریت پسند سرحد پار سے پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھے۔ پاکستانی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ کارروائی میں اہم کمانڈروں سمیت 42 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں جانی نقصان کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں، تاہم ان اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
چیلنجز میں گھرے افغانستان میں عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش؟
مبصرین سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ افغانستان اس وقت سیکیورٹی، معیشت، انسانی حقوق اور انسانی بحران جیسے سنگین چیلنجز سے دوچار ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرحدی کشیدگی کے بعد طالبان حکومت نے ان مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا کر پاکستان مخالف بیانیے کو مضبوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور وہاں پاکستان مخالف جذبات کو مزید اُبھارا جا رہا ہے۔
پاکستان کے حملے کے خلاف سرحدی صوبے پکتیکا سمیت مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
افغانستان کے مشرقی صوبے خوست سے تعلق رکھنے والے صحافی یوسف منگل کے مطابق خوست بازار میں مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد نے ایک جلسے میں شرکت کی جس میں مظاہرین نے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جوابی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
'افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو بطور پراکسی استعمال کر سکتے ہیں'
سمیع یوسفزئی کے بقول استعداد کے لحاظ سے پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ایک بڑا اور مضبوط ملک ہے۔ دفاعی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا شمار افغانستان کے مقابلے میں مستحکم ریاستوں میں ہوتا ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کی ایک شناخت ہے۔
اُن کے بقول طالبان، پاکستان کے داخلی سیکیورٹی مسائل سے بھی آگاہ ہیں اور ان مسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ افغان طالبان سرحد پر براہ راست لڑائی کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ ملک کے اندر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بطور 'پراکسی' بھی استعمال کر سکتے ہیں جو طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ کی بیعت کر چکے ہیں۔
ان کے مطابق اس خطے میں سرحدی تنازعات اور کشیدگی پڑوسی ممالک کے درمیان معمول کی بات ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں دونوں ممالک کسی بڑے تصادم تک جانے سے گریز کریں گے۔
اُن کے بقول اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام شہری براہِ راست متاثر ہو سکتے ہیں جس سے ایک نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
'بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے'
سینئر تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان کے کابل کے دورے کے دوران طالبان حکومت سے اُن کی ملاقاتوں کے تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا ہوئی تھی۔ تاہم حالیہ واقعات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی مزید بڑھے گی۔
طاہر خان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کی فضا پہلے سے موجود تھی اور محمد صادق خان ایک سال بعد بطور پاکستانی سفارت کار افغانستان کا دورہ کر رہے تھے۔ تاہم ان واقعات نے اس مثبت پیش رفت کو متاثر کر دیا ہے۔
اُن کے بقول اس واقعے کے بعد مفاہمت کا سلسلہ رک گیا ہے اور اس دوران طے پانے والی مفاہمتی یادداشتوں پر عمل درآمد کا امکان اب معدوم نظر آتا ہے۔ کیوں کہ کسی ملک کے اندر فضائی کارروائی کے اثرات کو زائل ہونے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔
طاہر خان مزید کہتے ہیں کہ اس نوعیت کی کارروائیاں تعلقات کی بحالی اور مفاہمت کے عمل کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ فضائی بمباری کے اثرات دیر تک محسوس ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا دوبارہ قائم کرنا ایک مشکل عمل بن جائے گا۔
فورم