|
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے رواں برس آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔
جماعت کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ غیر جانب دارانہ، صاف شفاف انتخابات منعقد کرائے جائیں تو ہی ملک میں استحکام آئے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئین تمام اداروں کے دائرہٴ کار کا تعین کرتا ہے اور افواج کی سیاست میں مداخلت آئینی تقاضوں سے متصادم ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کے عمل میں افواج، خفیہ ادارے اپنی مداخلت کو ختم کریں۔ ان کے بقول انہوں نے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف تحریک کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت سے ہونے والے رابطوں کے بارے میں شوریٰ نے طے کیا ہے کہ حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ہماری اور تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کر سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس پر سینئر صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس وقت مولانا فضل الرحمٰن کا نئے انتخابات کا مطالبہ ان کے اضطراب کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد بھی مولانا فضل الرحمٰن نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ نہ بنیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی کے باعث اس وقت سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ بنیں تھیں۔
سلمان غنی نے کہا کہ جب پی ڈی ایم نے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کیا۔ تو مولانا فضل الرحمٰن انتخابات کے لیے تیار نہیں تھے کیوں کہ انہیں حکومت میں حصہ ملا تھا اور ان کے بیٹے وزیر اور سمدھی گورنر تھے۔ اس وقت مولانا نے انتخابات کے حوالے سے کہا تھا کہ انتخابات میں جانا حماقت ہو گی۔
سلمان غنی کے مطابق اگر دوبارہ انتخابات ہو جاتے ہیں تو کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کو بڑی پارلیمانی حیثیت مل جائے گی؟
ان کے بقول دراصل بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کسی بڑے منصب کی تلاش میں ہیں اور انہیں توقع تھی کہ نئی حکومت میں وہ ایوانِ صدر میں بیٹھیں گے۔ لیکن بندوبست کے تحت یہ منصب آصف زرداری کے حصے میں آیا ہے۔
اب مولانا فضل الرحمٰن یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بڑی جماعتیں انہیں استعمال کرتی ہیں اور انہیں ان کا حصہ نہیں ملتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا نئے انتخابات کا مطالبہ ایک روایتی مطالبہ ہے۔ لیکن ان کا الیکشن کا مطالبہ پورا ہو سکے گا یا نہیں، یہ ابھی دکھائی نہیں دیتا۔
سلمان غنی نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ قبل از وقت الیکشن ایک جمہوری راستہ ہے۔ لیکن موجودہ بندوبست چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
مولانا کا تحریکِ انصاف سے اتحاد
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اتحاد کے حوالے سے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اگر سیاسی مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اپنے اندر یکسوئی پیدا کرے اور مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کرے تو سنجیدہ مذاکرات کو خوش آمدید کہیں گے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن کی کوئی پارلیمانی حیثیت نہیں بن سکی، نہ قومی اسمبلی اور نہ ہی خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی میں اور اس صورتِ حال میں ان کو توقع تھی کہ پی ٹی آئی انہیں حزبِ اختلاف کے اتحاد کا سربراہ بنائے گی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن نے جہاں حکومت سے مایوسی کا اظہار کیا وہیں وہ پی ٹی آئی کے رویے سے بھی خوش نہیں ہیں۔
سلمان غنی نے کہا کہ ایسی صورتِ حال میں پی ٹی آئی سے مولانا فضل الرحمٰن کے اتحاد کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو پی ڈی ایم کے سربراہ کا منصب دے کر ایک ایسی روایت قائم ہو گئی ہے اور وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی انہیں حزبِ اختلاف کے اتحاد کا سربراہ بنائے۔
تاہم سلمان غنی کے بقول پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمٰن کی احتجاجی حیثیت کو تو ساتھ رکھنا چاہتی ہے، لیکن فیصلہ سازی مین ان کا ہاتھ دینے کو تیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں میں حکومت کی مخالفت پر تو اتفاق ہے۔ لیکن باقاعدہ اتحاد کی صورت ممکن نہیں ہے اور اس حوالے سے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحب زادہ حامد رضا کا بیان بہت واضح ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن سے اتحاد نہیں کرنا چاہئے۔
پی ٹی آئی کا کمیٹی کا اعلان
تحریکِ انصاف نے مولانا فضل الرحمٰن سے اتحاد کے حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے جس کی سربراہی سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کریں گے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے ترجمان اخونزادہ حسین یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی کہ پی ٹی آئی نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کے نام بھجوا دیے ہیں جن میں اسد قیصر، عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف شبلی فراز اور پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن شامل ہیں۔
انہوں بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بھی پانچ پارٹی رہنماؤں پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور یہ دونوں کمیٹیاں تحریک تحفظ آئین پاکستان کی میزبانی میں اپنے اتحاد اور مستقبل کے مشترکہ سیاسی لائحہ عمل پر بات چیت کریں گی۔