امریکہ کے وفاقی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) نے نائن الیون کے حملوں میں ملوث دو سعودی ہائی جیکرز کو مدد فراہم کرنے سے متعلق خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں۔
جاری کردہ دستاویز میں امریکہ میں ہائی جیکرز کے سعودی ساتھیوں سے رابطے کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ اس دستاویز میں سعودی عرب کے کسی سرکاری عہدے دار کے اس سازش میں ملوث ہونے سے متعلق کوئی ثبوت شامل نہیں ہے۔
نائن الیون کے واقعات کی ابتدائی تحقیقات سے متعلق دستاویزات صدر بائیڈن کے احکامات کے مطابق اس واقعے کی بیسویں برسی کے موقعے پر جاری کیے گئے ہیں۔
ایف بی آئی کی جاری کردہ 16 صفحات پر مبنی دستاویز اس شخص سے 2015 میں کیے گئے انٹرویو کا خلاصہ ہے جو حملوں سے قبل پہلے ہائی جیکر کو امریکہ پہنچنے پر معاونت فراہم کرنے والے یہاں مقیم سعودی شہریوں سے مسلسل رابطے میں رہا تھا۔
صدر بائیڈں نے گزشتہ ہفتے محکمۂ انصاف اور دیگر اداروں کو آئندہ چھ ماہ کے دوران دستاویز جاری کرنے کے لیے ان کا جائزہ لینے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
صدر بائیڈن کو نائن الیون حملوں کے متاثرین کے ان اہل خانہ کی جانب سے مسلسل دباؤ کا سامنا تھا جو سعودی حکومت پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ متاثرین کے خاندان اس سلسلے میں نیویارک کی عدالت میں درخواست بھی دائر کر چکے ہیں۔
سعودی حکومت نائن الیون کے حملوں میں کسی بھی سطح پر ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ امریکہ میں سعودی سفارت خانے نے بھی حملوں کی تحقیقات سے متعلق صیغہ راز میں موجود دستاویز عام کرنے کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔
نائن الیون حملوں کے متاثرین کے اہل خانہ نے بھی دستاویزات جاری کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔
متاثرین کے اہل خانہ کے وکیل جم کرینڈلر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایف بی آئی کی جاری کردہ دستاویز اور آج کی تاریخ تک عوامی سطح پر جمع کیے گئے شواہد سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ میں القاعدہ کس طرح سعودی حکومت کی معلوم معاونت کے ساتھ فعال تھی۔
نائن الیون حملوں کے بعد یہ انکشاف ہوا تھا کہ طیاروں کے اغوا اور حملوں میں ملوث 19 افراد میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے سعودی حکام کے ان حملوں میں ملوث ہونے سے متعلق چہ موگوئیاں شروع ہوئی تھیں۔ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا تعلق بھی سعودی عرب کے ممتاز کاروباری گھرانے سے تھا۔
یہ دستاویز ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہیں جب امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں تنزلی آئی ہے۔
اس سے قبل رواں برس فروری میں صدر بائیڈن کی حکومت نے 2018 میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے پر انٹیلی جنس رپورٹ جاری کی تھی۔
امریکہ میں سرکاری دستاویز جاری کرنے کے قوانین
امریکہ میں معلومات اور دستاویزات کی حساسیت کے اعتبار سے درجہ بندی کے لیے ستمبر 1951 میں باقاعدہ ایک نظام بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے صدر ہیری ٹرومین نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا تھا۔
صدارتی حکم نامے میں ’ٹاپ سیکریٹ، سیکریٹ اور کنفیڈیشنل‘ کی درجہ بندی کی گئی تھی۔ آج بھی معلومات خفیہ رکھنے کے لیے یہی درجہ بندی استعمال کی جاتی ہے۔
امریکن ہسٹوریکل ایسوسی ایشن کے جریدے ’پرسپیکٹیو آن ہسٹری‘ میں تاریخ کے استاد اور مصنف سیم لیبووک کے مضمون کے مطابق 1951 میں ہونے والی مذکورہ قانون سازی سے قبل امریکی حکومت نے سرکاری دستاویز کی رازداری کا ایسا انتظام نہیں کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ نے سیکیورٹی ایڈوائزری بورڈ(ایس اے بی) قائم کیا۔ 1943 میں یہ بورڈ ’آفس آف وار انفارمیشن‘ کے تحت قائم کیا گیا تھا۔
سیم لیبووک کے مطابق سیکیورٹی ایڈوائزری بورڈ کے عہدے داران کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ وفاقی ملازمین ایسی سرکاری عمارتوں میں بھی اہم دستاویزات لاک کرکے نہیں جاتے جہاں عام طور پر آنے جانے والوں کی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی۔
ایس اے بی کے عہدے داران کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ کلاسیفائیڈ معلومات کے افشا ہونے کے خلاف کوئی قانون ہی موجود نہیں۔
اس سے قبل 1917 کے ’اسپائنج ایکٹ‘ کے مطابق قومی دفاع سے متعلق معلومات کسی غیر متعلقہ فرد کو فراہم کرنے کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ معلومات کے ’قومی دفاع سے متعلق‘ ہونے کا تعین کیسے کیا جائے گا۔
اسی طرح معلومات تک رسائی کے لیے مجاز افراد اور خلاف ورزی کی صورت میں سزا وغیرہ کا تعین بھی نہیں کیا گیا تھا۔
صدر ہیری ٹرومین نے 1951 میں جو حکم نامہ جاری کیا اس میں خفیہ معلومات کی درجہ بندی کا تعین کر دیا گیا اور اس درجہ بندی کو اسپائنج ایکٹ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا تھا۔
کلنٹن دور میں بنائی گئی ٹاسک فورس
اس سلسلے میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب اپریل 1993 میں صدر کلنٹن نے پہلی عالمی جنگ کے بعد سے صیغۂ راز میں رکھے گئی سرکاری دستاویزات کو منظرِ عام پر لانے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا۔
صدر نے اس مقصد کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ اس ٹاسک فورس کا مقصد تھا کہ دستاویز کا جائزہ لے کر تعین کیا جائے کہ ان میں سے کون سی دستاویزات خفیہ رکھی جائیں۔ دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کیسے کیا جائے اور حکومتی امور میں بہت زیادہ رازداری سے کس طرح گریز کیا جائے۔
نیویارک ٹائمز کی 1993 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل صدر نکسن اور جمی کارٹر بھی خفیہ دستاویز کو ڈی کلاسیفائی کرنے سے متعلق ایسی ہدایات جاری کرچکے تھے جنہیں انٹیلی جنس اور ملٹری بیورو کریسی نے نظر انداز کیا۔
موجودہ قوانین
دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے لیے 29 دسمبر 2009 کو اس وقت کے صدر براک اوباما نے ایگزیکٹو آرڈر 13526 جاری کیا۔ جس نے دستاویزات کی ڈی کلاسیفکیشن سے متعلق سابقہ حکم ناموں میں بھی ترمیم کی۔
اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کے جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کا حکومت کے اقدامات سے باخبر ہونا ضروری ہے۔
صدارتی حکم نامے میں تاریخی معلومات تک عوامی رسائی کو قومی ترقی کے لیے بھی اہم قرار دیا گیا۔
اس حکم نامے کے تحت باقاعدہ ’نیشنل ڈی کلاسیفکیشن سینٹر‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سینٹر کا مقصد صدارتی حکم کے مطابق دستایزات کی ڈی کلاسیفیکشن کے عمل میں معاونت کرنا تھا۔
اس صدارتی حکم نامے کے مطابق تاریخی اہمیت رکھنے والے 25 برس پرانے سرکاری ریکارڈ کو از خود ڈی کلاسیفائی کرنے کا قانون بنایا گیا۔
محکمہ انصاف کے مطابق آٹو میٹک ڈی کلاسیفیکیشن کا مقصد قومی سلامتی پر سمجھوتہ کیے بغیر سرکاری دستاویزات تک عام رسائی دینا ہے۔
اس لیے اس حکم نامے میں 9 ایسے استثنی بھی بیان کیے گئے ہیں جن کے بارے میں 25 برس بعد دستاویزات ازخود جاری نہیں کی جائیں گی۔
انٹیلی جنس کے لیے معاونت فراہم کرنے والے افراد، ہتھیار سازی، ٹیکنالوجی، جاری جنگی منصوبوں میں شریک افراد کی ذاتی تفصیلات، دو طرفہ ملکی تعلقات سے متعلق خفیہ معلومات وغیرہ کو اس قانون سے استثنیٰ حاصل ہے۔