محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان کے بالائی علاقوں میں معمول سے 10 فیصد زائد بارشیں ہوں گی جن کی وجہ سے دریاؤں میں طغیانی اور ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔
اس پیش گوئی کے تناظر میں وفاقی و صوبائی اداروں نے کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر رکھی ہے، اور اس عمل میں انھیں غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ کی مدد بھی حاصل ہے۔
انسانی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد کے لیے اقوام متحدہ کے نگران ادارے کے پاکستان میں سربراہ مینول بیسلر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عالمی تنظیم گزشتہ دو ماہ سے پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی و صوبائی سطح پر قائم اداروں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
مینول بیسلر نے کہا کہ پاکستانی عہدے داروں کی معاونت سے لگائے گئے محتاط اندازوں کے مطابق سیلاب کی صورت میں کم از کم 20 لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 58 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سیلاب کے باعث آبادی والے علاقوں کو سیلابی پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائے گئے حفاظتی پشتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ”ایک طرف بنیادی ڈھانچہ کمزور ہو چکا ہے اور دوسری طرف بڑی تعداد میں لوگوں کو سیلاب کے باعث اپنی املاک سے محروم ہو جانے کی وجہ سے غیر محفوظ صورت حال کا سامنا ہے۔“
ان تمام حالات کے پیش نظر مینول بیسلر کے بقول تمام اداروں اور امدادی تنظیموں کو کسی نئی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال شدید بارشوں کے باعث پاکستان کو اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہوا تھا اور ملک کے کل رقبے کا 20 فیصد اس کی زد میں آیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے ملک بھر میں لگ بھگ دو کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے۔