پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے درمیان اختلافات کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ البتہ گزشتہ ہفتے پیش کیے گئے وفاقی بجٹ پر یہ اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
سندھ حکومت نے وفاقی بجٹ میں صوبے کو 234 ارب روپے کم دینے کا گلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صوبے کی معاشی ترقی پر منفی اثر پڑے گا۔
سندھ حکومت کے ترجمان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے دوسرے سال میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس کی وصولی کی شرح کم ترین رہی مگر اب کرونا وائرس کا بہانہ بنا کر وفاقی حکومت اپنی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ترقیاتی اسکیموں میں بھی سندھ کا حصہ سب سے کم رکھا گیا ہے۔
انہوں نے اسے صوبہ سندھ کے ساتھ زیادتی قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ اس صورتِ حال میں صوبائی حکومت تنخواہوں کی ادائیگی اور ترقیاتی اخراجات کیسے پورے کرے گی؟
سندھ حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کی قائم کردہ 'سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی' پر بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں۔
قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ کے علاوہ کسی صوبے میں ایسی کمپنی قائم نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کمپنی سے صوبے میں جو ترقیاتی کام کرائے جا رہے ہیں وہ غلط ہے۔ سندھ کوئی کالونی نہیں اسے اسلام آباد کی کالونی نہ سمجھا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر صوبے میں ترقیاتی کام کرانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر سندھ حکومت کی جانب سے ترقیاتی کام پر وفاقی حکومت کو کرپشن کا شک ہے تو وہ اس معاملے پر نیب سے کیوں رجوع نہیں کرتی؟
سید مراد علی شاہ کے بقول وفاقی حکومت نے کئی ترقیاتی اسکیمز اس سال کے بجٹ میں شامل نہیں کیں جبکہ کئی اسکیمز پر کام عرصے سے التوا کا شکار ہے۔
واضح رہے کہ 'سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی' میں صوبائی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس میں چیف سیکریٹری سندھ، وفاقی سیکریٹریز برائے مواصلات، خزانہ، منصوبہ بندی، ایڈیشنل سیکریٹری برائے کابینہ ڈویژن، فوج کی کور فائیو کے بریگیڈیئر، بعض ماہر تعمیرات اور کمشنر کراچی اور دیگر سرکاری افسران کو شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں شریک وزیر اعلٰی سندھ نے وفاقی حکومت کی جانب سے مجموعی قومی پیداوار اور ملکی معیشت کی ترقی کی شرح نمو کے پیش کیے گئے اعداد و شمار پر بھی کھل کر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
وزیر اعلٰی سندھ نے واضح کیا تھا کہ حکومتی اعداد و شمار اور عالمی اداروں کے اعداد و شمار میں بڑا فرق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غلط اعداد و شمار سے بجٹ بنانا مسئلہ بن جائے گا اس کا نقصان صوبوں اور وفاق دونوں کو یکساں ہو گا۔
حال ہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے تین بڑے اسپتالوں کے لیے بجٹ مختص کرنے اور انہیں ایک بار پھر صوبائی حکومت کے کنٹرول سے لے کر وفاق کے زیرِ انتظام چلانے کے امکانات پر سندھ حکومت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا ہے کہ اس بارے میں عدالتی احکامات کی روشنی میں وفاق کو اداروں کی واپسی کے لیے قانونی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کے تحت وفاق کو ادارے ضرور واپس کیے جائیں گے لیکن ان کے اخراجات اور واجبات وفاق کو واپس بھی کرنا ہوں گے۔
صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحتِ عامہ صوبائی معاملہ ہے۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست جمع کرا رکھی ہے۔
'اصل مسئلہ پیسہ نہیں بلکہ کرپشن ہے'
البتہ سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ نے سندھ حکومت کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ پہلے سے طے شدہ فارمولے کے مطابق وفاق کو حاصل ہونے والی آمدنی میں سے سندھ کو حصہ دیا گیا ہے۔
حلیم عادل شیخ کے بقول پیپلزپارٹی کی قیادت اس سارے معاملے میں ہمدردی سمیٹ کر اپنے ووٹرز کو گمراہ کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے گزشتہ سال اپنے ٹیکس ریونیو کے اہداف کو بھی انہی وجوہات کی بنا پر پورا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ ان کے مطابق آڈیٹر جنرل کی سالانہ رپورٹ میں صوبائی اداروں میں 957 ارب روپے کے غبن کا انکشاف ہوا ہے۔
حلیم عادل کا کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لیے صوبائی بجٹ میں مختص رقم کو بھی بروقت خرچ بھی نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے فنڈز ضائع ہوئے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں اس سال صحت کا بجٹ 120 ارب روپے کے لگ بھگ تھا مگر اس کے باوجود بھی صوبے میں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ صوبے میں کتے اور سانپ کے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں جبکہ تھر میں بچے غذائی قلت سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کو 12 سال میں 15 ہزار ارب روپے سے زائد کی رقم ملی مگر اس کے باوجود صوبے میں صحت اور تعلیم سمیت کسی شعبے میں کوئی بہتری نظرنہیں آتی۔ صوبہ سندھ کے معاشی مسائل کی اصل وجہ خراب طرز حکمرانی اور بد انتظامی ہے۔
کیا صوبائی حکومتوں کے بجٹ کا انحصار وفاق پر ہے؟
معاشی امور کے ماہر اور سندھ حکومت کے سابق مشیر خزانہ سید اسد علی شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صوبائی حکومتوں کے بجٹ کا زیادہ انحصار وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولیوں پر ہوتا ہے۔
اُن کے بقول صوبوں کو 80 سے 90 فی صد آمدنی وفاقی حکومت کی جانب سے وصول ہونے والے ٹیکسز کی شکل میں ملتی ہے۔ وفاقی حکومت انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایکسائز اور کسٹم ڈیوٹی حاصل کرتی ہے۔ یہ پیسے قابل تقسیم پول میں جاتے ہیں جہاں سے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت پہلے سے طے شدہ فارمولے کے تحت رقوم صوبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔
اسد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا وسائل میں حصہ 49 فی صد سے بڑھا کر بتدریج 57.5 فی صد کر دیا گیا تھا۔ نئے فارمولے کے تحت پنجاب کے پاس 51.4 فی صد، سندھ 24.55 فی صد، خیبر پختونخوا 14.62 فی صد اور بلوچستان کو قابل تقسیم رقوم میں سے 9.09 فی صد حصہ دینے پر اتفاق ہوا تھا۔
سید اسد علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں صوبوں کی جانب سے بجٹ خسارے یا ترقیاتی اسکیمز کے لیے کم رقوم مختص کرنے کا الزام کافی حد تک ٹھیک دکھائی دیتا ہے۔
اُن کے بقول سندھ معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہاں کراچی سے زیادہ ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ صوبائی حکومتیں سروسز پر سیلز ٹیکس، اسٹیمپ ڈیوٹیز، پراپرٹی ٹیکس، زرعی ٹیکس خود جمع کرتی ہیں۔
سید اسد علی شاہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنی غلطی کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ اپنی کوتاہی سے وہ بھی ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پاتی۔
اُن کے بقول صوبائی حکومتوں کو جو وسائل میسر ہوتے ہیں اُنہیں ضائع کیا جاتا ہے۔ عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کا حل یہی ہے کہ حکومتیں اگر فعال اور اپنا کام ٹھیک طریقے سے انجام دیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس بات کے امکانات بھی کم ہی ہیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اس سال صوبہ سندھ کے لیے مختص 761 ارب روپے سے زائد کی رقم پوری ادا کر پائے گی۔ کیوں کہ بجٹ میں ٹیکس ریکوری کے اہداف موجودہ غیر یقینی کی صورتِ حال میں غیر حقیقی دکھائی دیتے ہیں۔