امریکی محکمۂ انصاف نے چین کی چار کیمیکل مینوفیکچرنگ کمپنیوں اور آٹھ افراد کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کیے ہیں۔
چین کی کمپنیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے انتہائی نشہ آور اور درد کش دوا 'فینٹینیل' بنانے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز کو غیر قانونی طور پر اسمگل کیا تھا جس نے امریکہ میں 'اوپیوآئڈ ' یعنی نشے کے غلط استعمال کو ہوا دی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ جب امریکہ نے درد کش دوا بنانے کے لیے استعمال ہونے والے پیشگی کیمیکل بنانے کی ذمہ دار چینی کمپنیوں میں سے کسی کے خلاف مقدمہ چلایا ہے۔
امریکہ کے وفاقی پراسیکیوٹرز نے چین میں قائم کیمیکل کمپنی 'ہیوبی امارول بائیوٹیک' اور اس کے ایگزیکٹو رہنماؤں 35 سالہ کنگ یو وانگ، 31 سالہ یی یی چین اور ایر یانگ کے نام سے مشہور فنو لنو پر فینیٹیل کی اسمگلنگ اور پیشگی کیمیکل کی درآمد کے الزامات عائد کیے ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے رواں ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ فینٹینیل کے بہاؤ کو روکنے کے لیے امریکہ کو چین سے بہت زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا تھا اور وہ گزشتہ پانچ برسوں میں چین کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی وزیرِ خارجہ ہیں۔
امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں تین الگ الگ الزامات میں کمپنیوں پر میکسیکو میں سینالووا نامی کارٹیل یعنی گروہ کو پیشگی کیمیکل فروخت کرنے کا الزام عائد کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ میں منشیات کا سیلاب سا آگیا ہے۔
یہ کیس محکمۂ انصاف کی جانب سے کارٹیل کے رہنماؤں پر چینی کیمیکل کمپنیوں کے ذریعے فینٹینیل اسمگلنگ آپریشن چلانے کا الزام لگانے کے دو ماہ بعد آیا ہے۔ ان ملزمان میں میکسیکو سے تعلق رکھنے والے بڑے اسمگلر جوکین گزمین المعروف 'ایل چیپو' کے تین بیٹے بھی شامل ہیں۔
ایل چیپو پہلے کسی وقت سینالووا کارٹیل کے رہنما تھے اور اب وہ امریکہ میں قید ہیں۔
امریکی محکمۂ انصاف کی دوسری اعلیٰ ترین اہلکار ، ڈپٹی اٹارنی جنرل لیزا مونا کہتی ہیں فینٹینیل ایک بڑا خطرہ ہے، نہ صرف اس لیے کہ اس کی چھوٹے سی چھوٹی خوراک مہلک ہو سکتی ہے بلکہ اس لیے کہ فینٹینیل فطرت میں نہیں پایا جاتا اور یہ مکمل طور پر انسان کی تخلیق ہے۔
ان کےبقول امریکہ میں مقدمات فینٹینیل کی سپلائی چین کو نشانہ بنانے سے اس کے ماخذ تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
رائٹرز کے مطابق واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا خبر فائل کرنے تک کوئی جواب نہیں دیا۔
اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔