امریکہ کی ریاست میسوری کے قصبے فرگوسن میں ایک سیاہ فام نوجوان کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے 11 روز گزرنے کے بعد بھی جاری ہیں۔
بدھ کو دیر گئے بھی مظاہرین علاقے میں مختلف سڑکوں پر نکل آئے اور نو اگست کو مارے جانے والے 18 سالہ مائیکل براؤن کی ہلاکت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
یہ مظاہرے گزشتہ روز ہونے والے احتجاجی جلوس سے نسبتاً کم تعداد اور پرامن اندز میں ہوئے۔
ٹی وی پر دکھائے گئے مناظر میں مظاہروں میں دو ایسے افراد بھی دکھائے گئے جنہوں نے پولیس کے حق میں کتبے اٹھا رہے تھے۔ احتجاج کرنے والے دیگر افراد ان پر چیخ رہے تھے اور انھیں "گھر چلے جاؤ" کہہ رہے تھے۔
قبل ازیں بدھ کو امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر فرگوسن کے مقامی رہنماؤں اور رہائشیوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے "وفاقی حکومت کے انتہائی تجربہ کار ایجنٹس اور استغاثہ" مقرر کیا ہے۔
ہولڈر نے مائیکل براؤن کے والدین سے بھی ملاقات کی اور ان سے ان کے بیٹے کی ہلاکت کے واقعے کی "شفاف اور آزادانہ تحقیقات" کرانے کا وعدہ کیا۔
بدھ ہی کو تفتیش کرنے والی ایک گرینڈ جیوری نے بھی شواہد سے متعلق سماعت شروع کی۔ یہ جیوری تمام شواہد کا جائزہ لے کر اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا نوجوان کی ہلاکت کا الزام پولیس افسر ولسن پر عائد کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ولسن کو اس واقعے کے بعد رخصت پر بھیج دیا گیا تھا۔ براؤن کے لواحقین اور ان کے حامی پولیس اہلکار کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔