پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مقامی خبر رساں ادارے 'آن لائن نیوز ایجنسی' کے ایڈیٹر انچیف محسن بیگ کو اسلام آباد سے حراست میں لے لیا ہے۔ ان کی گرفتاری وفاقی وزیرِ برائے مواصلات مراد سعید کی شکایت پر عمل میں آئی ہے۔
عینی شاہدین اور محسن بیگ کے اہلِ خانہ کے مطابق بدھ کی صبح دس سے گیارہ بجے کے درمیان ایف آئی اے اہلکاروں نے اسلام آباد میں محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارااور اس دوران پولیس کی بھاری نفری نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا ۔
اہل خانہ کے مطابق ایف آئی اے کے پاس محسن بیگ کی گرفتاری کے وارنٹ نہیں تھے جس پر ان کی اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہوئی اور اہلکاروں نے محسن بیگ کو زدوکوب بھی کیا۔
دوسری جانب ایف آئی اے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ محسن بیگ کے گھر چھاپہ مارنے والی ٹیم کے پاس سرچ اینڈ سیز وارنٹ تھے اور جب اہلکاروں نے انہیں حراست میں لینے کی کوشش کی تو اس موقع پر محسن بیگ، ان کے صاحبزادے اور ملازمین نے ایف آئی اے ٹیم پر براہِ راست فائرنگ کی اور دو افسران کو یرغمال بھی بنایا۔
صحافی محسن بیگ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حامی سمجھے جاتے تھے لیکن حالیہ کچھ عرصے سے وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے۔
گیارہ فروری کو 'نیوز ون' چینل کے پروگرام 'جی فار غریدہ' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مراد سعید سے متعلق ذو معنی جملے کہے تھے۔ پروگرام کی میزبان نے جب محسن بیگ سے سوال کیا کہ بہترین کارکردگی پیش کرنے والے وزیروں کی فہرست میں مراد سعید کے پہلے نمبر پر آنے کی وجہ کیا ہے؟ اس پر محسن بیگ نے کہا تھا کہ" وہ نہیں جانتے لیکن ریحام کی کتاب میں لکھا ہوا ہے، پتا نہیں وہ (عمران خان)کس کے لیے مطمئن ہوں گے ان سے ۔"
مراد سعید نے اپنی شکایت میں اسی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ محسن بیگ نے ان کی کردار کشی کی ہے جس پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
مراد سعید کی درخواست پر بدھ کو جب ایف آئی اے سائبر کرائم کے اہلکار محسن بیگ کے گھر پہنچے تو ان کی جانب سے مزاحمت کی گئی۔
سوشل میڈیا پر ایف آئی اے کی کارروائی کے دوران بنائی جانے والی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں محسن بیگ کو اسلحہ اٹھائے اور ایک اہلکار کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ محسن بیگ آن لائن نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر انچیف کے ساتھ ساتھ روزنامہ جناح کے بھی ایڈیٹر انچیف ہیں۔
محسن بیگ کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ
ایف آئی اے اہلکاروں سے مزاحمت اور فائرنگ کرنے کے الزام میں محسن بیگ کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعہ سمیت اقدامِ قتل اور دیگر کئی دفعات شامل کی ہیں۔
پولیس نے محسن بیگ کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا اور ریمانڈ کی استدعا کی۔ اس موقع پر محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے اہلکاروں نے انہیں تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں شبہہ ہے کہ ان کی پسلیاں ٹوٹ گئی ہیں اور وہ ایک آنکھ سے دیکھ بھی نہیں پا رہے اس لیے میڈیکل کرایا جائے۔
عدالت نےمیڈیکل ٹیسٹ کرانے کی محسن بیگ کی استدعا منظور کر لی جب کہ انہیں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے بھی حوالے کر دیا ہے۔
محسن بیگ کی گرفتاری پر حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ محسن بیگ اگر عمران خان کی تعریف کریں تو اچھے ہیں لیکن تنقید کریں گے تو ایف آئی اے کے ذریعے چھاپے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایف آئی اے کو استعمال کرکے پہلے اپوزیشن کو گرفتار کرایا، جیلوں میں ڈالا اور اب عمران خان صحافیوں کو گرفتار کرا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اس معاملے پر حکومت کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن تا حال حکومت کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے فیس بک اور ٹوئٹر پا اپنے اکاونٹس پر ایک وڈیو شئیر کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محسن بیگ کے ہاتھ مٰیں اسلحہ ہے اور وہ سکیورٹی اہلکار پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
اس وڈیو کے ساتھ شہباز گل نے لکھا ہے کہ ’’ یہ ہیں محسن بیگ۔ یہ ہے حقیقت۔ یہ سمجھتے ہیں یہ قانون کو‘‘
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق، معاون خصوصی نے اس معاملے پر بعدا زاں ایک پریس کانفرنس بھی کی اور محسن بیگ کے صحافی ہونے پر بھی سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ کس اخبار یا ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کرتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر جہاں کئی صحافی محسن بیگ کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں وہاں کئی ایک نے اسلحہ اٹھانے جیسے اقدام کی مذمت بھی کی ہے۔
علینہ شگری نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہتی ہیں:
’’ صحافت جرم نہیں ہے لیکن قانون اپنے ہاتھ میں لینا جرم ہے‘‘۔
فیاض ولانہ شمالی امریکہ میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔اور کینیڈا اور پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز کے لیے پروگرام کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ امریکہ اور کینیڈا میں اگر کوئی بھی شخص پولیس یا سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کے دوران اسلحہ اٹھاتا تو اس کے نتائج انتہائی سنگین ہو سکتے تھے جس میں جان تک جا سکتی ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے مثال دی کہ گزشتہ سال چھ اپریل دو ہزار اکیس کو ایک پاکستانی کینیڈین شہری اعجاز چوہدری کو ٹورانٹو میں پولیس نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب وہ کسی مقدمے میں انہیں گرفتار کرنے آئی تھی۔اور جب دروازہ نہ کھلنے پر پولیس نے کھڑکی سے دیکھا کہ اعجاز چوہدری کچن سے سبزی پھل کاٹنے والی اٹھا رہا ہے، اس پر سکیورٹی نے فائرنگ کر دی۔
اس واقعے سے متلعق ایک اور پیش رفت میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت کی طرف سے محسن بیگ کے گھر پر ایف آئی اے کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔