مئی 2021 سے اب تک پاکستانی کرنسی روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 10 فی صد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ یہ کمی تھائی لینڈ کی کرنسی تھائی بھات سے اب تک کچھ کم رہی ہے جو 2021 میں 11 فی صد گر چکا ہے۔
معاشی ماہرین کی جانب سے پاکستانی کرنسی کو برِ اعظم ایشیا کی بدترین کارکردگی کی حامل کرنسیوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستانی کرنسی کی قیمت سات مئی کو انٹر بینک میں 152.28 پیسے تھی۔
لیکن 30 ستمبر کو انٹر بینک میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں یہ قیمت 170 روپے 66 پیسے ریکارڈ کی گئی۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ چار ماہ سے بھی کم وقت میں پاکستانی کرنسی کی قیمت اس قدر زیادہ گر گئی۔ جس سے ماہرین معیشت کے مطابق ملک میں معاشی غیر یقینی اور مہنگائی بڑھی۔
'عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں'
ماہر معیشت اور عارف حبیب سیکورٹیز میں ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ دنیا کی معیشتیں کرونا وبا سے نکلنے کے بعد جس طرح کھلی ہیں تو مجموعی طور پر دنیا بھر میں بشمول مختلف اجناس کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور طلب میں اضافہ ریکارڈ کیے جانے کی وجہ سے نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات بلکہ کوئلہ، اسٹیل، کپاس، گندم، چینی، فرٹیلائزر سمیت مختلف اجناس کی قیمتوں میں یا تو تاریخی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے یا اس کے قریب تر پہنچ گئی ہیں۔
طاہر عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان ان میں سے اکثر اجناس باہر سے منگواتا ہے اور ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں تاریخی طور پر ہمیشہ ہی سے زیادہ رہی ہیں۔ اس کے اثر کے طور پر ہمارا تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھا ہے۔
اُن کے بقول تجارتی خسارہ بڑھنے سے ادائیگیوں کے توازن پر فرق پڑا ہے۔ اب دوسری جانب یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اب ہماری کرنسی کا انحصار مارکیٹ پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بیرونی ادائیگیاں زیادہ ہوں گی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیادہ ہو گا جس سے لامحالہ روپے کی قدر بھی کم ہو گی۔
اُن کے بقول اگر دوسری جانب ہمارے پاس اِن فلوز بہتر ہو گئے یعنی ہمارے پاس زیادہ پیسے آنے لگیں، کرنٹ اکاؤنٹ بہتر ہو گیا تو اس کی قدر میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل حکومت نے کرنسی کی قدر کو فکس رکھا ہوا تھا۔ لیکن اب اس کا تعین طلب اور رسد کرتی ہے۔
'ملک میں نئی مشینری بھی بڑے پیمانے پر منگوائی جا رہی ہے'
طاہر عباس کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات پاکستان کی کُل درآمدات کا 25 فی صد ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد پاکستان بڑے پیمانے پر غذائی اشیا بھی درآمد کر رہا ہے۔ اور ان دونوں اشیا کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں حالیہ دنوں میں تیزی سے بڑھی ہیں۔
اُن کے بقول اس خسارے کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک نے کرونا وبا کے دوران جو معاشی پیکج دیا تھا جس کے تحت مقامی کاروبار کو سپورٹ کرنے اور انہیں اپنے کاروبار میں توسیع دینے کے لیے سستے قرضے فراہم کیے گئے تھے۔ اس پیکج کے تحت ملک کے اندر بڑے پیمانے پر مشینری بیرونِ ملک سے منگوائی گئی اور اس کی وجہ سے ہماری درآمدات کا بل بڑھا ہے۔
طاہر عباس کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ مشینری درآمد ہونے سے ہمیں زرِمبادلہ کے ذخائر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں لیکن بالآخر آگے جا کر اس مشینری سے ہماری برآمدات بڑھنے اور پھر مجموعی ترقی (جی ڈی پی) پر بھی یہ مثبت اثر ڈالے گی۔
'بعض درآمدی اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے'
طاہر عباس کے خیال میں اس وقت تجارتی خسارے میں کمی لانے کے لیے اسٹیٹ بینک نے کچھ اقدامات بھی کیے ہیں جن کے تحت پر تعیش اور غیر ضروری اشیا کو کم کرنے کے لیے ان اشیا کی خریداری کے لیے قرض کے حصول کا طریقۂ کار تبدیل کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول 114 اشیا پر 100 فی صد کیش مارجن رکھا گیا ہے جن سے اب ایسی اشیا کی کُل تعداد 525 ہو چکی ہے۔ ان اشیا پر یہ پابندی عائد کرنے سے ان کی بیرون ملک سے درآمدات میں کمی آئے گی جب کہ گاڑیوں کی درآمدات کم کرنے کے لیے قرض لینے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے مالی سال کے دو ماہ ہی کے ڈیٹا پر ایسے اقدامات لیے ہیں جس سے سال کے اختتام پر اسے قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی۔ جس کے اثرات اگلے تین سے چار ماہ میں آنا شروع ہوں گے ورنہ اس سے قبل معاشی ترقی کی رفتار کا سائیکل ٹوٹنے پر ہی ہم ایسے اقدامات لیتے تھے۔
'ریگولیٹری ڈیوٹی اور 100 فی صد کیش مارجن عائد کرنے میں بہت تاخیر کر دی گئی'
لیکن معاشی امور کے ایک اور ماہر اور وزارتِ خزانہ میں کئی سال تک تعینات رہنے والے سابق افسر ڈاکٹر اشفاق حسن روپے کی قدر میں کمی کا ذمے دار اسٹیٹ بینک کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک نے درآمدات بالخصوص غیر ضروری اشیا کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ پاکستان نے ڈھائی ارب ڈالرز سے زائد کے موبائل فونز درآمد کر لیے، اسی طرح غیر ملکی گاڑیاں، دودھ سے بنی ہوئی اشیا، جانوروں کی غذائی اشیا، شیمپوز اور صابن سمیت دیگر سیکڑوں ایسی مصنوعات ہیں جنہیں بیرون ملک سے نہ منگوانے سے کوئی بحرانی کیفیت پیدا نہیں ہو جاتی۔ لیکن ایسی اشیا کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔
اُن کے بقول اب جب کہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے تو ایسی اشیا پر 100 فی صد کیش مارجن نافذ کرنے اور ریگولیٹری ڈیوٹیز بڑھانے کے اقدامات کافی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔
افغانستان کی صورتِ حال کا اثر
طاہر عباس نے اس بات سے اتفاق کیا کہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے بھی روپے پر دباؤ بڑھا ہے۔ کیوں کہ اس وقت افغانستان کا سینٹرل بینک بند ہے۔ اس کی وجہ سے امریکی ڈالر وہاں بھی جا رہا ہے۔ لیکن اس کا اثر اس قدر زیادہ نہیں۔ بلکہ اصل محرکات تجارتی خسارے ہی میں اضافہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر وہاں امن و امان کی صورتِ حال اور معاشی بہتری کے کچھ امکانات پیدا ہوتے ہیں تو امید یہ کی جا رہی ہے کہ وہاں سے ڈالرز کی طلب میں کمی آنے سے پاکستان کی کرنسی پر اس کے پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں بھی روپے کی قدر گرنے میں افغانستان کا عنصر بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی کا آغاز مئی میں ہی ہو گیا تھا جب کہ افغانستان میں طالبان نے اگست کے وسط میں کنٹرول حاصل کیا۔ جس کے بعد وہاں کا مرکزی بینک بند، عالمی معاشی امدادی پیکیج بند ہونے سے وہاں معاشی بحران سنگین ہو گیا۔
کیا روپے کی قدر میں اضافے کا کوئی امکان ہے؟
طاہر عباس کا کہنا ہے کہ چار اکتوبر سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں جس میں امید کی جا رہی ہے کہ 15 اکتوبر تک پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضے کی نئی قسط مل جائے گی۔ جس سے مقامی کرنسی کے لیے اعتماد کی بحالی ممکن ہو سکے گی، آئی ایم ایف سے مذاکرات میں کامیابی سے دیگر ادارے بھی قرض کی فراہمی میں بھی آسانیاں آ جاتی ہیں۔
ادھر عالمی ریٹنگ ایجنسی فِچ کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت 180 روپے تک جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ریٹنگ کمپنی نے 165 روپے فی امریکی ڈالر رہنے کی توقع ظاہر کی تھی۔ لیکن طاہر عباس کا کہنا ہے کہ یہ محض توقعات ہیں۔ زمینی حقائق تبدیل ہونے پر یہ تخمینے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اِن فلوز بہتر ہونے پر پاکستانی کرنسی کی قدر میں اضافہ کا بھی امکان ہے۔ اور یہ اپنی کھوئی ہوئی قدر کو دوبارہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔
روپے کی قدر گرنے سے ملکی معیشت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟
ڈاکتر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر گرنے سے اس پر کئی قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عام طور پر ایسے میں بے یقینی کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے کہ کل یہ قیمت مزید گھٹے گی یا بڑھے گی؟
اُن کے بقول سرمایہ کار ایسے میں محتاط ہو جاتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں حالیہ مندی کی بھی کئی وجوہات میں سے ایک یہ ہے۔ باہر سے اشیا منگوانے والے تاجر (امپورٹر) روپے کی گراوٹ کی وجہ سے مال منگوانے میں جلدی کرتے ہیں کہ کہیں یہ مزید نہ گر جائے اور اس سے انہیں باہر سے منگوانے والی اشیا مزید مہنگی پڑیں گی۔ اس لیے جلد منگوانے سے ان کا ملک کے اندر منافع بڑھے گا جب کہ ایکسپورٹرز حضرات اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ڈالر مزید مہنگا ہو تو ہمیں اپنے مال کے عوض زیادہ پیسے مل جائیں گے۔
اُن کے بقول یوں وہ زیادہ کمانے کے چکر میں سپلائی کم کر دیتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں سپلائی اور ڈیمانڈ میں فرق مزید بڑھ جاتا ہے، تجارتی خسارہ بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں اور ملک کے اندر بھی اشیا مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب کرنسی کی قیمت گرنے سے ملکی قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے اور انہیں واپس کرنے کے لیے زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔
طاہر عباس کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو وہ اشیا جو باہر سے درآمد کی جاتی ہیں ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جن میں پیٹرولیم مصنوعات، گاڑیوں کی قیمتیں، اسٹیل، گندم اور چینی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اثرات بجلی اور گیس کے ٹیرف میں بڑھنے کی صورت میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔
واپسی کا راستہ کیا ہے؟
طاہر عباس کے خیال میں روپے کی قیمت کو گرنے کے بجائے مستحکم اور پھر اس کی قدر بڑھانے کا راستہ بہت سادہ ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کی اشیا کو تو ہم نہیں روک سکتے لیکن ہم غیر ضروری اور پرتعیش اشیا کی خریداری کی حوصلہ شکنی ضرور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سستی درآمدات کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ درآمدات مہنگی ہوں گی تو ایسی اشیا کی طلب میں خود بخود کمی آ جائے گی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں معیشت کو درآمدات پر چلانے کے بجائے برآمدات بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔
اُن کے بقول غیر ضروری اشیا کی درآمدات کو ہر صورت روکنا ہو گا، پاکستان کو غذائی اشیا منگوانے کے بجائے ٹیکنالوجی اور وسائل کا سمجھ داری سے بہترین استعمال کرتے ہوئے کمی کو پورا کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ برآمدی سیکٹر کی بھی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی، کیونکہ روپے کی قدر میں حالیہ اضافے سے ان کی پیداواری قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ گزشتہ سال پاکستان کی برآمدات پہلی بار 25 ارب ڈالرز کی حد سے بڑھ گئیں مگر درحقیقت یہ اضافہ ہماری تیار کردہ اشیا کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں زیادہ ہونے سے آئی۔ حقیقت میں ہم نے کم مقدار میں اشیا باہر بھیجیں اور پھر خطے کے کئی ممالک کے مقابلے میں ہماری برآمدات اب بھی کم ہیں۔