پاکستان کے وزیرِ خزانہ اپنی حلف برداری کے چند روز بعد ہی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کے لیے امریکہ پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان کے معاشی حالات اور بڑھتے ہوئے مالی خسارے کے تناظر میں وزیرِ خزانہ کے اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
بدھ کو روانگی سے قبل ایک ٹوئٹ میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ وہ دورے کے دوران آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کریں گے جسے تحریکِ انصاف کی حکومت نے ڈی ریل کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں قرضے کی اگلی قسط جلد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
مرکزی بینک کے گورنر رضا باقر اور دیگر اعلیٰ حکام بھی پہلے سے ہی امریکہ میں موجود ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی وفد آئی ایم ایف حکام کو ایک ارب ڈالرز کے قرضے کی قسط جاری کرنے کے لیے قائل کرے گا اور اس حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے رکھی گئی شرائط کو آسان کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے امریکہ روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر کے بجٹ خسارے کو بڑھنے سے روکا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے صنعی شعبے اور رئیل اسٹیٹ کو دی جانے والی ٹیکس ایمنسٹٰی واپس لینے, بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانے اور ٹیکس جمع کرنے کی شرائط سامنے آ رہی ہیں۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سالانہ ترقیاتی منصوبے جو بجٹ میں 950 ارب روپے کے رکھے گئے تھے اور انہیں تحریک انصاف کی حکومت نے ضمنی بجٹ میں 700 ارب روپے تک محدود کردیا تھا، کو مزید 100 ارب روپے کم کرنے کی تجویز بھی آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آئی ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی امریکہ میں جہاں آئی ایم ایف حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں وہیں ان کی ملاقات ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے نمائندوں سے بھی ہوں گی جن میں پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات اور ان کے حل کے بارے میں پیش رفت پر بات ہو گی۔
نئے وزیر خزانہ نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے اور پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط مل سکے گی۔
"قرض تو مل جائے گا، لیکن مہنگائی مزید بڑ ھ سکتی ہے"
معاشی تجزیہ کار آئی ایم ایف سے مذاکرات کو پاکستان کواس وقت درپیش بین الاقوامی ادائیگیوں کے بحران کے تناظر میں اہم قرار دے رہے ہیں۔ فنڈ سے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں دیگر مالیاتی اداروں سے بھی گرانٹس اور قرضے کے حصول میں جہاں آسانی پیدا ہو گی وہیں پاکستان کو ان اداروں اور ممالک سے اپنے قرضے ری شیڈول کرنے میں بھی آسانی میسر آسکتی ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر بی ایم اے کیپیٹل مینجمنٹ سعد ہاشمی کے خیال میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط ملنے کے امکانات تو روشن ہیں لیکن اس میں اصل رکاوٹ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی پر آئے گی۔
ان کے خیال میں موجودہ حکومت کے لیے اس وقت پہلے ہی بڑا مسئلہ مہنگائی کا بنا ہوا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے مطالبے پر پیٹرول کی قیمت بڑھائی جاتی ہے تو اس سے مزید مہنگائی جنم لے گی ۔
سعد ہاشمی کہتے ہیں کہ بیشتر پاکستانیوں کی آمدنی بھی اس قدر نہیں کہ وہ مہنگائی کی اس لہر کا سامنا کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی مرحلہ وار ختم کرنی ہو گی اور اس کے بجائے غذائی اشیا جیسا کہ گندم اور کھاد سمیت دیگر اشیا پر سبسڈی دینا ہوگی۔
انہوں نے اس خیال سے تو اتفاق کیا کہ حکومت کو بھاری مالی خسارہ کم کرنے کے لیے اخراجات کو کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن سعد ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس میں زیادہ گنجائش موجود نہیں کیونکہ سول حکومت چلانے کے اخراجات، دفاع، ترقیاتی بجٹ، این ایف سی ایوارڈ، پینشن بلز اور پھر قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے پیسہ درکار ہوتا ہے۔
تاہم بعض دیگر معاشی ماہرین کے خیال میں قرضوں میں جکڑی معیشت کو اس جال سے نکالنے کے لیے سول حکومت کے اخراجات، دفاع، پینشن وغیرہ میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے جب کہ دو ہزار ارب روپے سے زائد نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں میں اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ملک کی کیپٹل مارکیٹ اور بھاری بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں۔
سعد ہاشمی کے خیال میں ملک کے معاشی حالات کے بارے میں کی جانے والی پیش گوئیاں یہ بتاتی ہیں کہ آنے والے سال میں بھی بین الاقوامی ادائیگیوں کا مسئلہ پاکستان کو درپیش ہوگا۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ستمبر میں موجود پروگرام ختم ہونے کے بعد پاکستان کو مزید بیرونی سرمائے کی ضرورت ہوگی۔
لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا اس کا بندو بست بین الاقوامی بانڈز جاری کرکے کیا جاتا ہے یا پھر ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑ سکتا ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔