وزیرِ اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے توہینِ عدالت کیس میں ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کو معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ فردوس عاشق اعوان اپنے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں اور کہا کہ وہ یہ مقدمہ نہیں لڑنا چاہتیں، اس لیے غیر مشروط معافی مانگ رہی ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جو کچھ کہنا ہے، وہ تحریری جواب کی صورت میں جمع کرائیں۔ میرے بارے میں کچھ بھی کہیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وزرا نے کہا ڈیل ہوگئی ہے۔ کیا یہ عدالتوں کو پریشرائز کرنے کے لیے کہا گیا؟ جب حکومت خود کہہ دے کہ ڈیل ہوگئی ہے تو ڈیل کر کون رہا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ سنگین جرم یا دہشت گردی کے ملزم کو بھی فیئر ٹرائل کا حق ہے۔ عدالت کی عزت اور وقار اس کے فیصلوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا 2014 کے دھرنے کے دوران موجودہ صدر عارف علوی نے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف چھٹی کے دن عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے اسی روز احکامات جاری کر کے پولیس کو پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ کے بقول عدالت نے صرف قانون کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ ہر جج نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھایا ہوا ہے۔ جنوبی افریقہ میں چیف جسٹس کے ساتھ تصاویر کو (ن) لیگ کے صدر کے ساتھ تصویر کہہ کر سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔
بعد ازاں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی آئندہ سماعت پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 9 نومبر تک تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیا جب کہ مقدمے کی سماعت 11 نومبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
سماعت کے بعد فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ عدالت نے ان کی غیر شروط معافی کو مسترد نہیں کیا بلکہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
خیال رہے کہ فردوس عاشق اعوان کو نواز شریف کی ضمانت کے معاملے پر بیان دینے پر عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ نواز شریف کے لیے شام کے وقت عدالتیں لگا لی گئی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ فردوس عاشق اعوان کے اس بیان پر انہیں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت میں طلب کیا تھا۔