سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر حکومتی ریفرنس کی پہلی سماعت جمعے کو سیریم جوڈیشل کونسل میں ہو گی۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر وکلا برادری منقسم نظر آتی ہے۔
وکلا کی نمائندہ تنظیمیں سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل اس ریفرنس کو حکومتی بدنیتی قرار دے رہی ہیں جب کہ پنجاب بار کونسل اور لاہور بار کونسل اس معاملے پر حکومتی موقف کی تائید کر رہی ہیں۔
پہلی سماعت کے موقع پر وکلا کے ایک گروپ نے مکمل ہڑتال کا اعلان کیا ہے جب کہ بعض وکلا کا کہنا ہے کہ قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے۔
فائز عیسیٰ کے حامی وکلا کیا کہتے ہیں؟
سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر وکلا برادری متحد ہے۔
امان اللہ کنزائی کے مطابق، کراچی بار کونسل نے بھی 14 جون کو مکمل ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کیا ہے جب کہ دیگر بار کونسلز بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ کل پورے ملک میں احتجاج ہو گا اور وکلا عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کریں گے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر ہم ریفرنس پر بات کریں تو میڈیا نشر نہیں کرتا۔ لیکن، حکومتی موقف کے حامی وکلا کی پریس کانفرنس نشر کی جاتی ہیں۔
امان اللہ کنزانی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں صرف ایک جج کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ہم اس ریفرنس کی مذمت کرتے ہیں۔ اگر قاضی فائز عیسٰی کے خلاف کارروائی ہوئی تو 20 سال تک صوبے سے کوئی جج نہیں آئے گا۔
امان اللہ کنرانی نے دعویٰ کیا کہ ملک بھر کے وکلا ان کے ساتھ ہیں۔ بعض وکلا جنہوں نے حکومت سے مراعات لینی ہیں وہ حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے وکلا سمجھتے ہیں کہ اگر قاضی فائز عیسٰی کو سزا دی گئی تو ان کا حق بھی چھن جائے گا۔
حکومت کے حامی وکلا کیا کہتے ہیں؟
دوسری جانب مختلف وکلا تنظیمیں احتجاج سے انکار کر رہی ہیں۔ لاہور میں بھی دو دھڑے سامنے آئے ہیں جہاں پیپلز پارٹی، ن لیگ پر مشتمل وکلا نے ہڑتال کی حمایت جب کہ ڈسٹرکٹ بار نے عدالتوں میں پیش ہونے کا اعلان کیا ہے۔ کراچی میں بھی وکلا کے ایک گروپ نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ انصاف سب کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم وکلا کے نمائندے ہیں ججز کے نہیں۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ سب کا احتساب ہو۔
ریفرنس کے حمایتی وکلا کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں، سرکاری افسران اور جرنیلوں کا احتساب ہو رہا ہے تو جج احتساب سے بالاتر کیسے ہو سکتے ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کیا ہے؟
سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے خلاف آنے والی کسی بھی قسم کی شکایات کے لیے قائم کردہ آئینی ادارہ ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں۔ ان کے ساتھ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز جن میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید جوڈیشل کونسل میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ عدالت عالیہ کے دو سینیئر چیف جسٹس بھی سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہیں۔
فائز عیسیٰ پر الزامات کیا ہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر لندن میں موجود جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے۔ اس حوالے سے اثاثہ جات ریکوری یونٹ اور ایف بی آر کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق لندن میں موجود جائیداد کو، جو ان کی اہلیہ اور بیٹے کے نام ہے، جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔
اس حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر عارف علوی کو خط لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔ لہذا، ان کی جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا، اور نہ ہی کبھی ٹیکس حکام نے انھیں کوئی نوٹس دیا۔ لہذٰا، ان کے خلاف ریفرنس سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہو رہی ہے۔