ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں ایک فوجی چھاؤنی کے نزدیک ہونے والے کار بم دھماکے اور دیگر کارروائیوں میں ترک فوج کے پانچ اہلکار اور 30 کرد جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔
ترک حکام کے مطابق پیر اور منگل کو پیش آنے والے تشدد کے مختلف واقعات میں آٹھ عام شہریوں سمیت 57 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق ایک خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری اپنی گاڑی پیر کی شب کرد اکثریتی صوبے دیار باکیر کے ضلع ہانی میں ایک فوجی مرکز سے ٹکرادی جس کے نتیجے میں ترک فوج کے دو اہلکار مارے گئے۔
دھماکے سے فوجی مرکز کے نزدیک واقع ایک عمارت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے جہاں فوجی اہلکاروں کے اہلِ خانہ مقیم تھے۔
ترک فوج کا کہنا ہے کہ حملے میں کل 47 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں آٹھ عام شہری ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے سے علاقے میں موجود گاڑیوں، مکانات اور دکانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ترک حکام نے بتایا ہے کہ عراق اور شام کی سرحد سے متصل صوبے سرنک میں مبینہ شدت پسندوں کےحملے میں ایک فوجی اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔
واقعے کے بعد سرنک کے سرحدی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف ترک فوج کی کارروائی میں تیزی آگئی ہے اور ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق اس علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں جہاں فوجیوں پر حملہ ہوا تھا۔
شام کی سرحد سے متصل ترک قصبے نصیبین میں ایک مشتبہ مکان پر چھاپے کے دوران وہاں ہونے والے دھماکے سے بھی ایک فوجی اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
ترک حکام کے مطابق ایران کی سرحد سے متصل ترک صوبے ہکاری کے ایک گاؤں داگلیکا میں کرد علیحدگی پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں بھی ایک فوجی اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوگئے ہیں۔
ترک فوج نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جنوب مشرقی علاقے کے چار مختلف قصبات میں فوج کی کارروائیوں اور جھڑپوں میں 30 کرد علیحدگی پسند مارے گئے ہیں۔
بیان کے مطابق جن علاقوں میں جھڑپیں ہوئی ہیں وہ شام، عراق اور ایران کی سرحدوں کے نزدیک واقع ہیں اور تشدد کے حالیہ واقعات کے بعد وہاں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
ڈھائی برس تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے بعد گزشتہ سال موسمِ گرما میں کرد علیحدگی پسندوں نے ترک حکومت کے خلاف اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کردی تھیں جس کے بعد سے اب تک جنگجووں کے حملوں میں سیکڑوں عام شہری اور ترک فوجی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
ترک حکومت کرد علیحدگی پسند جنگجووں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے امکان کو یکسر مسترد کرچکی ہے جس کے بعد سے ترک فوج کرد اکثریتی علاقوں میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ترک حکام نے دھماکے کا الزام کرد باغی تنظیم 'کردستان ورکرز پارٹی' (پی کے کے) پر عائد کیا ہے۔