واشنگٹن —
ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے چھوڑے جانے والے پانچ طالبان کمانڈر افغان تھے جو طویل مدت سے کیوبا میں قائم گوانتانامو بے کے امریکی حراستی مرکز میں قید تھے۔
اِن پانچوں افغان طالبان کو طیارے پر قطر روانہ کیا گیا، جس نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اُنھیں شرائط کے تحت ایک سال تک دوحہ ہی میں رکھا جائے گا۔ یہ شرائط امریکی فوجی سارجنٹ بووے برگڈہل کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں طے ہوئے، جو تقریباً پانچ برس سے طالبان کی قید میں تھے۔
کم از کم ایک عشرہ قبل امریکہ نے اِن پانچ طالبان کو دہشت گردی کے شبہے میں پکڑا تھا۔
امریکہ کی طرف سے افغانستان میں طالبان کی جنگی کارروائیوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش میں اِن پانچوں دہشت گردوں کو پہلے ہی سال میں میدانِ جنگ سے ہٹا دیا گیا تھا، جِن پر الزام تھا کہ وہ ہی 2001ء میں امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار تھے۔
وہ 1996ء سے 2001ء کے دوران باضابطہ طور پر سرکاری ملازمت میں تھے، جب طالبان کی افغانستان پر حکمرانی تھی۔
چند امریکی اہل کاروں کو اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ بالآخر وہ افغانستان واپس پہنچ جائیں گے اور پھر سے افغان حکومت اور مغربی مفادات کے خلاف لڑنا شروع کردیں گے، جیسا کہ گوانتانامو سے رہا ہونے والے دیگر قیدی کرتے آئے ہیں۔
امریکہ 2014ء کے اواخر تک ملک میں جنگی کارروائیاں ختم کرنے والا ہے، تب تک اپنی زیادہ تر فوجیں واپس بلا لے گا اور اپنی زیادہ تک فوجی اور سلامتی کے کارروائیاں افغان اہل کاروں کے حوالے کر دے گا۔
رہائی پانے والے یہ پانچ طالبان جنھیں قطر روانہ کیا گیا، اُن میں خیراللہ خیرخواہ شامل ہے، جن کے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن سے قریبی تعلقات کا سبھی کو علم ہے۔ اسامہ 2001ء کے امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے سرغنے تھے، جنھیں 2011ء میں اُن کے پاکستانی گھر کے احاطے پر امریکی چھاپے کے دوران ہلاک کیا گیا۔
عبد الحق واسق طالبان انٹیلی جنس کے معاون سربراہ تھے؛ جب کہ ملا محمد فضل طالبان فوج کے ایک سینئر کمانڈر رہ چکے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1998ء اور 2001ء کے دوران کابل کے قریب شیعہ برادری کے ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ دار ہے۔
محمد نبی عمری کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ گوانتانامو میں قید سابق طالبان اہل کاروں میں وہ اہم ترین قیدیوں میں شامل تھا، جن کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُسی نیٹ ورک نے برگڈہل کو قید کر رکھا تھا۔
طالبان حکمرانی کے دور میں، ملا نوراللہ نوری متعدد افغان علاقوں میں صوبائی گورنر رہ چکے ہیں۔
اِن پانچوں افغان طالبان کو طیارے پر قطر روانہ کیا گیا، جس نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اُنھیں شرائط کے تحت ایک سال تک دوحہ ہی میں رکھا جائے گا۔ یہ شرائط امریکی فوجی سارجنٹ بووے برگڈہل کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں طے ہوئے، جو تقریباً پانچ برس سے طالبان کی قید میں تھے۔
کم از کم ایک عشرہ قبل امریکہ نے اِن پانچ طالبان کو دہشت گردی کے شبہے میں پکڑا تھا۔
امریکہ کی طرف سے افغانستان میں طالبان کی جنگی کارروائیوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش میں اِن پانچوں دہشت گردوں کو پہلے ہی سال میں میدانِ جنگ سے ہٹا دیا گیا تھا، جِن پر الزام تھا کہ وہ ہی 2001ء میں امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار تھے۔
وہ 1996ء سے 2001ء کے دوران باضابطہ طور پر سرکاری ملازمت میں تھے، جب طالبان کی افغانستان پر حکمرانی تھی۔
چند امریکی اہل کاروں کو اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ بالآخر وہ افغانستان واپس پہنچ جائیں گے اور پھر سے افغان حکومت اور مغربی مفادات کے خلاف لڑنا شروع کردیں گے، جیسا کہ گوانتانامو سے رہا ہونے والے دیگر قیدی کرتے آئے ہیں۔
امریکہ 2014ء کے اواخر تک ملک میں جنگی کارروائیاں ختم کرنے والا ہے، تب تک اپنی زیادہ تر فوجیں واپس بلا لے گا اور اپنی زیادہ تک فوجی اور سلامتی کے کارروائیاں افغان اہل کاروں کے حوالے کر دے گا۔
رہائی پانے والے یہ پانچ طالبان جنھیں قطر روانہ کیا گیا، اُن میں خیراللہ خیرخواہ شامل ہے، جن کے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن سے قریبی تعلقات کا سبھی کو علم ہے۔ اسامہ 2001ء کے امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے سرغنے تھے، جنھیں 2011ء میں اُن کے پاکستانی گھر کے احاطے پر امریکی چھاپے کے دوران ہلاک کیا گیا۔
عبد الحق واسق طالبان انٹیلی جنس کے معاون سربراہ تھے؛ جب کہ ملا محمد فضل طالبان فوج کے ایک سینئر کمانڈر رہ چکے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1998ء اور 2001ء کے دوران کابل کے قریب شیعہ برادری کے ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ دار ہے۔
محمد نبی عمری کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ گوانتانامو میں قید سابق طالبان اہل کاروں میں وہ اہم ترین قیدیوں میں شامل تھا، جن کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُسی نیٹ ورک نے برگڈہل کو قید کر رکھا تھا۔
طالبان حکمرانی کے دور میں، ملا نوراللہ نوری متعدد افغان علاقوں میں صوبائی گورنر رہ چکے ہیں۔