پاکستان کے صوبے بلوچستان میں تیز بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی کے باعث سیلابی صورتِ حال ہے۔ ضلع لسبیلہ سمیت صوبے کے کئی اضؒلاع میں اب تک 111 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ضلع لسبیلہ کے علاقے اوراکی میں سیلاب کے باعث 300 سے زائد افراد پھنسے ہوئے اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
لسبیلہ کے مقامی باشندے محمد حفیظ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علاقے میں سیلاب کے باعث درجنوں افراد پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع لسبیلہ کے علاقے اوراکی میں صورتِ حال سب سے زیادہ خراب ہے سیلاب کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ کچے مکانات پانی میں بہہ گئے ہیں اور لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
ادھر پی ڈی ایم اے ذرائع کا کہنا ہے حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث بلوچستان میں ہلاکتوں کی تعداد 111 ہو گئی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بدھ کو ضلع قلعہ سیف اللہ میں تین افراد پانی کے ریلے میں بہہ کر ہلاک ہوگئے جب کہ ضلع لسبیلہ میں بھی اطلاعات کے مطابق ان تک سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پی ڈی ایم اے بلوچستان ایمرجنسی سیل کے انچارج محمد یونس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث بلوچستان کے ضلع کوئٹہ، پشین، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، سبی، واشک، چمن، آواران، نوشکی، زیارت، شیرانی، ہرنائی، جعفرآباد، ژوب، ڈیرہ بگٹی، خضدار،مستونگ، پنجگور، کوہلو اور لسبیلہ میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
محمد یونس نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے چھ ہزار سے زائد مکانات کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
حالیہ سیلابی صورتِ حال کے باعث صوبہ بھر میں 565 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا، نو مقامات پر پل ٹوٹ گئے، 712 مویشی ہلاک ہوگئے جب کہ ایک لاکھ 97 ہزار ایکٹر پر مشتمل زرعی زمینوں کو نقصان پہنچا ہے۔
پی ڈی ایم اے حکام کا کہنا ہے کہ امدادی کارروائیوں کے علاوہ پی ڈی ایم اے متاثرہ علاقوں میں نو ہزار ٹینٹ سات ہزار کمبل، 700 سے زائد سولر لائٹس، 7 ہزار مچھر دانیاں اور 13 ہزار فوڈ پیکٹس فراہم کرچکی ہے۔
لسبیلہ سب سے زیادہ متاثر
ادھر لسبیلہ کے بعض علاقوں میں 24 گھنٹے گزرنے کے باجود بھی کئی افراد پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیو کلپس وائرل ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
وزیرِ اعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے لسبیلہ میں سیلاب میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
ادھر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ایک بیان میں بتایا کہ دو ہیلی کاپٹر اوراکی کے علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے لسبیلہ پہنچیں گے۔
شدید بارشوں سے کوئٹہ اور کراچی کے درمیان تین رابطہ پلوں سمیت ہائی وے کے کچھ حصے بہہ جانے کے باعث ٹریفک کا نظام متاثر ہوا ہے۔
'بارشوں کا 30 برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا'
چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مون سون بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ امدادی سرگرمیوں میں فوج، ایف سی اور ضلعی انتظامیہ حصہ لے رہے ہیں اور حکومت کےلیے متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی بحالی بڑا چیلنج ہے۔
چیف سیکرٹری بلوچستان نے کہا کہ حالیہ بارشوں نے 30 سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ بارشوں سے اب تک 111 اموات ہوئی ہیں جب کہ ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں ۔
ان کے مطابق حالیہ بارشوں سے 50 ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ 17 ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔
جنوبی پنجاب میں بھی بارشوں کے باعث تباہی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بھی موسلا دھار بارش کے باعث کئی نشیبی علاقے زیرِ آب آ گئے ہیں۔ معمول سے زائد بارشوں کی وجہ سے کئی مکانات زیرِ آب آنے کے علاوہ املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق مقامی افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیلاب کے باوجود انتظامیہ حرکت میں نہیں آئی اور کئی علاقوں میں تاحال امدادی کارروائیاں شروع نہیں ہو سکیں۔
خیال رہے کہ ڈیرہ غازی خان ڈویزن چار اضلاع پر مشتمل ہے جن میں ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ اور لیہ کے اضلاع شامل ہیں۔ ڈی جی خان ڈویژن کا 52 فی صد رقبہ پہاڑی علاقوں جب کہ 48 فی صد میدانی علاقوں پر مشتمل ہے۔
ڈویژن کے دو اضلاع ڈی جی خان اور راجن پور کے جنوب میں کوہِ سلیمان کا علاقہ ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث جب یہاں بارشیں ہوتی ہیں تو پانی ندی نالوں میں آتا ہے۔
راجن پور کی تحصیل روجھان کے گاؤں بستی ددڑ والا کے رہائشی مظہر حسین بتاتے ہیں کہ اُن کےعلاقے میں بارشوں کی وجہ سے بہت تباہی ہوئی ہے۔ علاقے میں سیلاب آیا ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اُن کے گھروں میں پانی ہے اور بڑے رقبے پر علاقے میں کپاس کی فصل پانی کی نذر ہو گئی ہے۔ بہت سے مال مویشی مر گئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ علاقے کے بہت سے گاؤں مکمل طور پر سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے، وہاں خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ مظہر حسین بتاتے ہیں کہ علاقے میں لوگ بے یارو مددگار ہیں۔
ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے علاقے لال گڑھ جو کہ مقامی قبیلہ گورچانی کا مرکز بھی ہے وہاں کے رہائشی محبوب خان گورچانی بتاتے ہیں کہ اُن کے علاقے میں جب بھی معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو سیلابی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔
محبوب خان گورچانی بتاتے ہیں کہ پہلے جو آبی گزرگاہیں بنی ہوتی تھٰیں اُن میں سے پانی آرام سے گزر جاتا تھا اور دریائے سندھ میں جا کرگرتا تھا۔ جس کے پانی کو لوگ ضرورت کے مطابق کاشت کاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔
راجن پور کے اسسٹنٹ کمشنر آصف اقبال کا کہنا ہے کہ اس وقت امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
اُن کے بقول حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتِ حال سے صرف راجن پور تحصیل کے 52 دیہات متاثر ہوئے ہیں جب کہ 20 گاؤں مکمل طور پر زیرِ آب آ گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ کچھ دیہات میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے جس کے باعث ریسیکو آپریشن مکمل ہو گیا ہے اور اَب امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
راجن پور کے مقامی صحافی الیاس گبول کے مطابق سیلابی پانی سے شوریا نہر اور چشمہ نہر میں شگاف پڑ گئے ہیں جس کے باعث انڈس ہائی وے چوکیاں والا کے مقام سے بند ہو گئی۔ انڈس ہائی وے بند ہونے سے کراچی سے پشاور ٹریفک معطل ہے۔
ڈیرہ غازی خان کے مقامی صحافی اور ادیب ملک سراج احمد بتاتے ہیں کہ اُن کا ضلع پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہونے کے باعث بارش کا پانی جب اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو اِس قدر تیزی سے آتا ہے کہ وہ جہاں سے گزرتا ہے تباہی مچاتا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کسی بڑی نہر سے دو ہزار کیوسک پانی گزرتا ہے جب کہ بارشوں کے موسم میں اُن کے علاقے سے 70 ہزار کیوسک سے ڈیرھ لاکھ کیوسک تک پانی گزرتا ہے۔