پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف جب دو روز قبل سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر پہنچے تو انہیں بریفنگ کے دوران شہدادکوٹ سے پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی میر نادر مگسی اور وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے درمیان مکالمے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں افراد دادو اور قمبر شہداد کوٹ کے مختلف علاقوں میں سیلاب سے متعلق تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ سندھ کہہ رہے ہیں کہ دھامرا پانی میں جیسے ہی گیا تو میہڑ کو بچانا مشکل ہے۔ اس پر نادر مگسی نقشے کو دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ بند کو اس طرف نہیں بلکہ دوسری طرف موڑا جائے۔پانی نے جو تباہی کرنا تھی وہ کردی ، اب بند توڑیں تو پانی آگے نکلے اور دریا میں جائے۔
اس موقع پر وزیرِاعلیٰ سندھ یہ کہتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں کہ ہم جام خان (وزیرِِ آب پاشی) کو بھیجتے ہیں،وہ یہ دیکھیں اور جو بھی ممکنہ راستہ ہے اس کی نشاندہی کرکے حل نکالیں۔
دوسری جانب وزیرِاعلیٰ سندھ اور میر نادر مگسی نے اس معاملے پر کسی قسم کے اختلافات کی خبروں کی تردید کی ہے اور اسے ٖغلط قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بات کا غلط مطلب لیا جارہا ہے۔ ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ شہداد کوٹ سے پانی نکالنے کے لیے میہڑ شہر کی جانب پانی کا راستہ بنانے کے لیے رنگ بند توڑ دیا جائے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پانی کو ایسا راستہ دیا جائے، جس سے ہمارے شہر بچ سکیں، ایسا نہ ہو کہ جو چند جگہیں بچی ہیں وہ بھی ڈوب جائیں۔
یہ بحث صرف یہیں نہیں بلکہ صوبے کے کئی اور مقامات پر بھی ہو رہی ہے، جہاں مختلف علاقوں میں بندوں میں شگاف ڈالنے یا نہ ڈالنے پر تکرار، حتیٰ کہ سیاسی جھگڑے بھی چل رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی مقامات پر تو مدِ مقابل دونوں جانب پیپلزپارٹی کے ہی رہنما ہیں۔
دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر یہ صورتِ حال زیادہ سنگین ہے، جہاں خیرپور ناتھ شاہ سمیت سینکڑوں دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں۔ جب کہ دادو، سیہون اور بھان سعید آباد شہروں کو بچانے کے لیے منچھر جھیل میں دو مقامات پر شگاف ڈالے گئے ہیں۔تاہم اس دوران ضلع سیہون کی پانچ یونین کونسلز اور ان میں واقع سو سے زائد دیہات زیرِ آب آ گئے ہیں۔
ضلع دادو کے علاقے میہڑسے رکن صوبائی اسمبلی فیاض علی بھُٹ نے اعلان کیا ہے کہ اگر محکمۂ آب پاشی کی جانب سے رنگ بند توڑا گیا، جس سے میہڑ اور اطراف کے گاؤں ڈوبنے کا خطرہ ہے، تو وہ مزاحمت کریں گے۔ علاقہ مکینوں نے شہر کو بچانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت رنگ بند کو مزید مضبوط کیا ہے اور اس کی دن رات حفاظت بھی کی جارہی ہے۔
سماجی رہنما معشوق برہمانی نے بتایا کہ ضلع دادو کو تین اطراف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے۔ ایک جانب سندھ، بلوچستان سرحد پر کیرتھر پہاڑیوں پر ہونے والی بارشوں سے پانی ندی نالوں سے ہوتا ہوا منچھر جھیل میں جمع ہوتا ہے۔دوسری جانب حمل جھیل کا پانی نارا ویلی (ایم این وی) ڈرین سے ہوتا ہوا منچھر جھیل پہنچتا ہے۔ جب کہ ضلع کی تیسری جانب دریا ہے جہاں پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے سے کچے کا علاقہ زیرِ آب آگیا ہے۔
ان کے بقول منچھر جھیل میں پانی، خطرے کے مقام یعنی 122 آر ایل (رڈیوسڈ لیول) سے بڑھنے پر بند میں کٹ لگایا گیا۔ جھیل میں یہ سطح سال 2010 میں آنے والے سیلاب سے بھی زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
معشوق برہمانی کے مطابق اس کٹ کے لگانے سے مقامی آبادیوں میں غصہ پایا جاتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے ضلع سہیون کی تحصیلیں جعفرآباد، بوبک، واہر اور دیگر شدید متاثر ہوئی ہیں اور سیہون ایئرپورٹ تک بھی پانی پہنچ گیا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو بڑی آبادیوں والے شہر زیرِ آب آجاتے۔موجودہ صورتِ حال میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
ادھر وزیر اعلیٰ سندھ نے، جن کا آبائی گاؤں بھی اسی ضلع میں واقع ہے، منگل کو کراچی میں صحافیوں کو بتایا کہ منچھر جھیل کا پانی دریا میں تیز رفتاری سے نہیں جارہا کیوں کہ اس وقت دریا میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہے۔ کوٹری کے مقام پر چھ لاکھ کیوسک ریکارڈ کیا جا رہا ہے جو بڑا سیلابی ریلہ ہے جب کہ منچھر سے کرم پور کے مقام پر دریا میں پانی کا اخراج بمشکل 30 ہزار کیوسک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ منچھر جھیل میں پانی کی صورتِ حال معمول پر آنے میں مزید ایک ہفتہ یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے، جس کے بعد ہی دادو، قمبر، لاڑکانہ کے اضلاع سے پانی کا اخراج ممکن ہوسکے گا۔
اگر دریا کے بائیں جانب اضلاع کی بات کی جائے تو یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ ضلع سانگھڑ میں سیلابی پانی کو سندھڑی میں واقع کنگل جھیل کی جانب موڑنے پر احتجاج کیا گیا۔
احتجاج کرنے والوں نے الزام لگایا کہ یہ بااثر وڈیروں کی زمینوں کو بچانے کے لیے کیا جارہا ہے، جس سے جھیل کے اردگرد درجنوں دیہات زیرِ آب آجائیں گے۔
واضح رہے کہ اس تعلقے میں سیلابی صورتِ حال سے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
اسی طرح کی شکایت میرپور خاص میں بھی ہے جہاں جھڈو کے قریب بند میں پڑنے والے شگاف کی وجہ سے ہزاروں افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ جب کہ کوٹ غلام محمد بھی پانی میں ڈوب چکا ہے۔
مزید برآں کنڈیارو کے مقام پر بھی دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر پانی کا زور کم کرنے کے لیے جب پانی کو کچے کے علاقے میں جانے کے لیے بند توڑا گیا تو وہاں پر بھی لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔ جس پر وزیرِ آب پاشی جام خان شورو کو خود وہاں جاکرلوگوں سے مذاکرات کرنا پڑے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے بھر میں سیلابی صورتِ حال ہے۔بندوں کو توڑ کر بااثر زمینداروں کی زمینیں بچانے کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے صوبےمیں ہی تباہی آئی ہوئی ہے اور بہت کم ہی ایسا علاقہ ہے جہاں پانی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی اگر کوئی شکایت آئی تو اس کی تصدیق کے بعد متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ بندوں میں کس جگہ شگاف ڈالنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ محکمۂ آب پاشی کے متعلقہ سینئر انجینئرز کرتے ہیں جس کی اجازت وزیر آبپاشی سے لی جاتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فیصلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کس طرح آبادیوں کا کم سے کم نقصان ہو اورانہیں زیادہ نقصان سے بچا جاسکے۔