رسائی کے لنکس

شاہ محمود قریشی کے بیان کو 'یہود مخالف' قرار دینے یا نہ دینے کی بحث


پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی۔ فائل فوٹو
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی۔ فائل فوٹو

پاکستان میں حکومتی عہدیداروں اور کئی سوشل میڈیا کمنٹیٹرز کی جانب سے وزیرخارجہ کے بیان کا دفاع جبکہ واشنگٹن میں تھنک ٹینک اور کئی میڈیا شخصیات کی طرف سے مخالفت میں ٹویٹس کی بھرمار ہو گئی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کے سی این این کو دیئے گئے انٹرویو کی غلط انداز میں تشریح کی گئی۔ انہوں نے جمعہ کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے موقعے پر وائس آف امریکہ کی مونا کاظم شاہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ کبھی 'اینٹی سیمائٹ' یا 'یہود مخالف' نہیں رہے، اور یہ کہ "میں ایسا کیوں کہوں گا؟"

واضح رہے کہ پاکستانی عہدیدار جمعے کے روز ان الزامات کا دفاع کرتے نظر آئے، جن میں کہا گیا تھا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران اسرائیل فلسطینی تنازعے پر گفتگو کرتے ہوئے یہود دشمن بیان دیا۔

وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ وہ خود پر یہود مخالف ہونے کے الزامات کا دفاع کیسے کریں گے، شاہ محمود قریشی نے جو کہا، وہ جاننے کے لئے نیچے دی گئی ویڈیو پر کلک کیجئے۔

میری بات کی غلط انداز سے تشریح کی گئی، شاہ محمود قریشی
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:56 0:00

تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا تھا، جب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سی این این کی میزبان بیانا گولوڈرائگا سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیل، ان کے الفاظ میں، ’’ کنکشنز‘‘ کے باوجود میڈیا جنگ ہار رہا ہے۔ اس پر میزبان نے فوراً پاکستان کے وزیرخارجہ سے کہا کہ وہ ان کنیکشنز کی وضاحت کریں۔

شاہ محمود قریشی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ (اسرائیل) بہت با اثر لوگ ہیں۔

’’ میرا مطلب ہے کہ وہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں‘‘

سی این این کی میزبان نے جواباً کہا کہ وہ ان ریمارکس کو یہود دشمن کہیں گی۔

نقادوں نے اس انٹرویو کے فوراً بعد ٹوئٹر پر آ کر شاہ محمود قریشی کے ریمارکس پر تنقید شروع کر دی۔

تاہم پاکستانی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز ایک بیان میں ان دعووں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا کہ شاہ محمود قریشی کے ریمارکس کو کسی بھی طور طول دے کر یہود دشمن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بیان کے مطابق "وزیرخارجہ کے بیان کو جس طرح بھی توڑ مروڑ کر پیش کریں گے، پھر بھی اس سے وہی بات عیاں ہو گی، جو وہ کہنا چاہتے تھے‘‘ بیان کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کے حق کا احترام لازمی طور پر ہر ایک کو مساوی بنیاد پر کرنا چاہیے۔

پاکستانی حکومت کے عہدیداروں اور بعض سوشل میڈیا کمنٹیٹرز نے شاہ محمود قریشی کے بیان کا دفاع کیا ہے۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے جمعے کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں کہا

’’ آزادی تقریر کا دعوی کرتے ہوئے اسلام اور ہمارے پیغمبر کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اسلام کا خوف پھیلایا جاتا ہے لیکن جب ہم مغربی میڈیا اور حکومتوں پر اسرائیل کی ’’ ڈیپ پاکٹس‘‘ اور اثرورسوخ کی بات کریں تو اس پر "یہود دشمن‘‘ ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کا قتل عام کرو اور اس کو اپنے دفاع کا حق گردانو‘‘

شیریں مزاری نے ایک اور ٹویٹ میں کہا ہے

’’ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس غلط بیانیے کو مسترد کریں اور اس کا مقابلہ کریں۔ بہت ہو چکا۔ ہمیں اس طرح کے بیانیوں سے دھمکایا یا بلیک میل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تاریخ کا بوجھ ہمارے کندھوں پر نہیں ہے، ہر چند مغرب اس کو ہمارے اوپر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھی شیریں مزاری کے بیان کو اپنی ایک ٹویٹ میں سراہا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’’بہت خوب کہا شیریں مزاری۔ یہ وقت ہے کہ ہم غیر معذرت خواہانہ انداز میں کھڑے ہوں، اس کو منافقت قرار دیں‘‘

شاہ محمود قریشی کا انٹرویو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعرات کو اسرائیل اور غزہ کی کشیدہ صورت حال پر بلائے جانے والے اجلاس سے خطاب کے فورا بعد نشر ہوا تھا۔ اس اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ نے فلسطینیوں کی مشکلات اجاگر کیں اور کہا کہ ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ہفتے بھر سے زائد عرصے سے جاری تشدد کو بند کرے۔

اقوام متحدہ کے اجلاس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سنٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام سے وابستہ مائیکل کوگل مین نے بھی شاہ محمود قریشی کے سی این این کے ساتھ انٹرویو پر اپنے ایک ٹویٹ میں تبصرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے ریمارکس سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

’’ ہمیں واضح ہو جانا چاہیے، جب پاکستان کے وزیرخارجہ سی این این پر آتے ہیں اور گھسے پٹے یہود دشمن جملے بولتے ہیں، ایسے ملامتی جملے کہتے ہیں جو یہودیوں کے لیے اسرائیل کے وجود میں آنے سے بھی پہلے استعمال کیے جاتے تھے، تو وہ فلسطینی عوام کے مقصد کو آگے نہیں بڑھا رہے‘‘

کوگل مین کے بقول اس سے وہ اپنے تو نمبر بنا لیں گے لیکن وہ جن لوگوں سے مخاطب ہیں، ان کی حمایت سے محروم ہونے کا خطرہ مول لیں گے۔

ایک امریکی ٹی وی میزبان مہدی حسن نے بھی اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اگر آپ اسرائیل پر ڈیپ پاکٹس رکھنے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا الزام عائد کریں گے تو آپ یہود دشمن ملامتی الفاظ کو ہی ہوا دے رہے ہوں گے۔

تاہم ایک پاکستانی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سنٹر فار سکیورٹی، سٹریٹجی اینڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ربیعہ اختر نے مسٹر حسن کے ٹویٹ کے جواب میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے کمنٹس کا دفاع کیا ہے۔

’’ کتنی شرمناک بات ہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ریمارکس کو یہود دشمن قرار دیا جا رہا ہے جبکہ انہوں نے صرف یہودی لابی کے بارے میں بات کی اور یہ کہ وہ کس طرح امریکہ کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے نہ کہ یہود مخالف بات۔ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور اس کی ایک لابی ہے۔ ہمھیں ان حقائق کو چھپانا نہیں چاہیے‘‘

XS
SM
MD
LG