پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں توہینِ مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم نے ایک مقامی کارخانے کے غیر ملکی مینیجر کو قتل کرنے کے بعد لاش کو بے دردی سے جلا دیا۔
واقعہ وزیر آباد کے ایک کھیلوں کے کپڑے بنانے والے کارخانے میں پیش آیا ہے۔
سیالکوٹ سے نجی ٹی وی کے صحافی نے اپنا نام نہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے واقعے میں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے جنرل منییجر پریانٹا کمارا کو مشتعل افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے کمپنی سے رابطہ کیا تو ان کا اس واقعے پر جواب موصول نہ ہو سکا۔ تاہم سوشل میڈیا پر دستیاب معلومات کے مطابق ہلاک ہونے والے شخص کا تعلق کولمبو سے ہے جو کمپنی میں بطور جنرل مینیجر کام کر رہا تھا۔
صحافی کے مطابق مشتعل ہجوم نے مینیجر کو جان سے مارنے کے بعد اس کی لاش کو جلا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی مینیجر نے کوڑے کی ٹوکری میں کچھ کاغذ پھینکے تھے جن پر مبینہ طور پر کچھ اسلامی کلمات لکھے ہوئے تھے۔ بعد ازاں فیکٹری کے دیگر ملازمین مشتعل ہو گئے اور انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔
مقامی صحافی نے کہا کہ مشتعل مظاہرین غیر ملکی مینیجر پر تشدد کرتے وقت نعرے لگاتے رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فیکٹری کے مشتعل مزدوروں نے واقعے کے بعد کارخانے کا گھیراؤ بھی کر لیا تھا جب کہ کچھ مزدوروں نے وزیر آباد روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے اسے ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سیالکوٹ عمر سعید بتاتے ہیں کہ اس وقت صورتِ حال قابو میں ہے اور پولیس کی اضافی نفری طلب کر لی ہے۔ تاہم واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کی جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او سیالکوٹ نے بتایا کہ وہ تمام صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ابتدائی طور پر کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جب کہ وزیرِ آباد روڈ پر ٹریفک کی روانی بحال کی جا چکی ہے۔
واقعہ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او سیالکوٹ نے بتایا کہ تحقیقات میں کارخانے کے دیگر ملازمین کو بھی شامل کیا جائے گا تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اشتعال انگیزی کس طرح پھیلائی گئی۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش معلومات کے مطابق ہلاک ہونے والے سری لنکن مینیجر کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔
کمپنی کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق وہ مختلف کھیلوں میں استعمال ہونے والے ملبوسات بناتی ہے اور ان کے پاکستان کے علاوہ امریکہ اور جرمنی میں بھی دفاتر ہیں۔
تاہم اس واقعے سے متعلق سری لنکن سفارت خانے کا فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
'یہ واقعہ انسانی عمل نہیں ہے'
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت افسوس ناک واقعہ ہے اور پاکستان علماء کونسل اس واقعے کی مذمت کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ انسانی عمل نہیں ہے۔ اس معاملے میں وزیرِ اعظم عمران خان نے فوری طور پر مجرمان کو گرفتار کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین موجود ہیں۔ تو اس قانون کے ہوتے ہوئے اس طرح کی حرکت کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ یہ جہالت اور وہشت ہے جس کا اسلام اور انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
طاہر اشرفی سمجھتے ہیں کہ اس سے قبل رحیم یار خان اور کرک میں جب توہینِ مذہب کے واقعات رونما ہوئے تھے تو اس میں ریاست نے اپنا کردار ادا کیا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہو گا۔
ان کے خیال میں ایسے واقعات لوگوں کو فوری سزائیں اور آگہی دے کر ختم کیے جا سکتے ہیں۔
طاہر اشرفی کے بقول مذہبی علماء پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شعور دیں کہ اگر خدانخواستہ کہیں پر توہینِ مذہب کا واقعہ پیش آ جاتا ہے تو وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں بلکہ قانون اور نظام کو اپنا کام کرنے دیں۔
اس سے قبل رواں برس پنجاب کے شہر خوشاب میں ایک بینک کے مینیجر کو توہینِ مذہب کے مبینہ الزام میں بینک کے سیکیورٹی گارڈ نے قتل کر دیا تھا۔
بعد ازاں یہ الزام ثابت نہیں ہو سکا تھا، جب کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھیں کہ بینک مینیجر نے فرائض میں غفلت برتنے پر سیکیورٹی گارڈ کی سرزنش کی تھی۔
حکام کا 50 افراد کی گرفتاری کا دعویٰ
سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی امور طاہر اشرفی، ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور اور آئی جی پنجاب راؤ سردار کا کہنا تھا کہ واقعے کا مقدمہ جلد درج کیا جائے گا۔
حسان خاور کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری فیکٹری ورکر کو نشانہ بنایا گیا۔ لاش کو سڑک پر لایا اور اسے نذرِ آتش کیا گیا۔
حسان خاور نے کہا کہ سری لنکن شہری کے ساتھ ہونے والا معاملہ بہت افسوسناک ہے۔ پولیس تفتیش کر رہی ہے۔ ابھی تک 50 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مزید ملزمان کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے شناخت کی جا رہی ہے۔ 48 گھنٹے میں تفتیش کا نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ پولیس کو پہلی 15 کی کال 11 بج کر 26 منٹ پر آئی۔ پولیس کی کوتاہی سامنے آئی تو کارروائی ہو گی۔
اِس موقع پر طاہر اشرفی نے کہا کہ توہینِ مذہب اگر ہو بھی تو اس کے لیے قوانین موجود ہیں جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے۔ انہوں نے دین اور پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی۔
پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پنجاب راؤ سردار نے بتایا کہ واقعے کا تاحال مقدمہ درج نہیں کیا گیا جو جلد درج کر لیا جائے گا۔