“مجھے ڈر ہے کہ کوئی شخص مجھے یا میرے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔”
یہ الفاظ ہیں 55 سالہ محمد تنویر کے، جن کی اہلیہ سلمیٰ تنویر کو حال ہی میں لاہور کی مقامی عدالت نے توہینِ مذہب کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی ہے۔
توہینِ مذہب کی ملزمہ نے سزا کے خلاف عدالتِ عالیہ میں اپیل دائر کر دی ہے۔ ملزمہ کے گھر والوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اُن کی حفاظت کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ اُنہیں جان کا خطرہ ہے۔
سلمیٰ تنویر کے شوہر محمد تنویر بتاتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کا کیس گزشتہ سات برس سے لڑ رہے ہیں اور آئندہ بھی لڑتے رہیں گے۔ اُن کے مطابق کیس کی پیروی کے لیے اُن کا سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد تنویر نے بتایا کہ جب سے اُن کی اہلیہ سلمٰی تنویر پر توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ہر شخص اُن کی اور اُن کے بچوں کی جان کا دشمن بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے گھر کو جلانے کی بھی کوشش کی گئی۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 2013 میں جب اُن کی اہلیہ کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا تو کچھ لوگوں نے اہل علاقہ کے ساتھ مل کر اُن کے گھر کا گھیراؤ کیا تھا جس کے باعث تین دن تک پولیس اُن کے گھر کے باہر تعینات رہی۔
’ڈر کی وجہ سے گھر بھی چھوڑنا پڑا‘
محمد تنویر بتاتے ہیں کہ اُن کا گھر لاہور کے ایک مہنگے علاقے میں تھا جسے اُنہوں نے خوف اور اپنی جان بچانے کی وجہ سے کم قیمت میں فروخت کیا جس کے بعد وہ کرایہ پر چھپ کر رہنے لگے۔ البتہ جونہی اہلِ علاقہ کو ان کے کیس کے بارے میں علم ہوا تو ڈر کی وجہ سے اُنہیں وہ گھر بھی چھوڑنا پڑا۔
ان کے مطابق اُن کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے جب کہ اُن کی اہلیہ ایک اسکول چلاتی تھیں۔ کیس کے باعث اُنہیں وہ اسکول بھی فروخت کرنا پڑا۔
اپنی نوکری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ نیسپاک میں بطور سول انجینئر کام کرتے تھے۔ دورانِ ملازمت اُنہیں پاکستان کے چند اہم منصوبوں پر بھی کام کرنے اور اُنہیں مکمل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کیس کی وجہ سے اُنہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ جب کہ اُن کے بچے بھی اسکولوں میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکے۔
’ایک بار حج اور پانچ مرتبہ عمرے کر چکے ہیں‘
اپنی اہلیہ سلمٰی تنویر پر لگے توہینِ مذہب کے الزام بارے محمد تنویر نے بتایا کہ اُن کی اہلیہ ایک دماغی بیماری کا شکار ہوتی چلی گئیں جس کے باعث ایک مقامی شخص قاری افتخار نے مبینہ طور پر اُن کی اہلیہ سے چند سطریں لکھوا کر بانٹ دیں اور مشتعل لوگوں کو اکٹھا کر کے دھمکیاں دینے لگا۔ ان کے مطابق وہ اور ان کی اہلیہ ایک مرتبہ حج اور پانچ مرتبہ عمرے کر چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قاری افتخار نے میری بیوی کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس سے کچھ تحریریں لکھوائیں۔ اُن تحریروں میں رد و بدل کیا اور 295-سی کا جھوٹا مقدمہ درج کرا دیا۔ اِس کیس کی وجہ سے ان کا پورا خاندان تباہ ہو گیا ہے۔ جائیداد سمیت ہر چیز برباد ہوئی ہے۔ بچوں کی تعلیم اور ان کا کیریئر ختم ہو گیا ہے۔ یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ وہ اپنے کھانے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔
محمد تنویر کے مطابق اُن کی اہلیہ کا کیس لڑنے کے لیے کوئی بھی وکیل تیار نہیں تھا۔ جس کے باعث اُنہیں بہت سی مشکلات کا سامنا رہا۔
ہر سماعت پر چھپ کر عدالت میں پیشی
وہ بتاتے ہیں کہ وہ کسی ایسی جگہ پر کرائے پر رہتے ہیں جہاں اُنہیں کوئی نہیں جانتا۔ جب کہ وہ ہر پیشی پر چھپ کر عدالت میں پیش ہوتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ چھپ کر ڈر اور خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں بہت زیادہ دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ انہیں ڈر ہے کہ کوئی شخص ان کو یا ان کے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ان کی حفاظت کی جائے۔
واضح رہے کہ لاہور کے علاقے بہادر آباد کی رہائشی خاتون سلمیٰ تنویر کے خلاف 2013 میں توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
قاری افتخار نامی شخص کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ نشتر کالونی میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق خاتون کا اپنا ایک اسکول تھا۔
مقدمے کے متن میں لکھا گیا ہے کہ سلمٰی تنویر توہینِ مذہب کی مرتکب ہوئی ہیں جس کے بعد خاتون کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
میڈیکل رپورٹس کیا کہتی ہیں؟
سلمٰی تنویر کے خلاف زیرِ سماعت مقدمے میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی تین رپورٹس عدالت میں جمع کرائی گئی۔ جن میں سے دو رپورٹس کے مطابق ملزمہ سلمٰی تنویر دماغی بیماری کی مریضہ ہیں۔
جمع کرائی گئی تیسری رپورٹ کے مطابق خاتون کی ذہنی حالت بہتر ہے اور وہ مقدمے کا سامنا کر سکتی ہیں۔
سلمیٰ تنویر کے وکیل میاں محمد رمضان کے مطابق جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا اس وقت ان کی موکلہ کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ اُنہیں نہیں معلوم کہ اُن سے کیا عمل ہوا ہے۔
ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا عندیہ
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملزمہ کے وکیل محمد رمضان نے کہا کہ مبینہ تحریروں کی فرانزک رپورٹس بھی عدالت میں جمع کرائی گئی تھیں۔
اُنہوں نے دعوٰی کیا کہ فرانزک رپورٹ میں سلمیٰ تنویر کی ہاتھ سے لکھی گئی تحریروں میں رد و بدل کیا گیا تھا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ اِس سلسلے میں عدالتِ عالیہ لاہور میں سزا کے خلاف جلد اپیل دائر کریں گے۔
اُن کا دعویٰ تھا کہ کیس کی پیروی کے دوران اُن پر بہت دباؤ تھا کہ وہ کیس کی پیروی نہ کریں یا پیچھے ہٹ جائیں۔ ایسے کیسز میں عدالتوں پر بھی دباؤ ہوتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ سلمیٰ تنویر کے ذہنی بیماری کے حوالے سے 2014 میں جو رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی تھی اُس کے مطابق ان کی ذہنی حالت درست نہیں تھی۔ 2019 میں دوبارہ رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں اُنہیں صحت مند ظاہر کیا گیا۔
’ضمانت مسترد ہوئی تو ذہنی بیماری کا بہانہ بنایا گیا‘
دوسری جانب مدعی کے وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری کہتے ہیں کہ جب ملزمہ کی درخواست ضمانت عدالت سے مسترد ہوئی تو اُنہوں نے ذہنی بیماری کا بہانہ بنایا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے غلام مصطفیٰ چوہدری نے کہا کہ ملزمہ واقعے کے وقت اسکول بھی چلاتی تھیں۔ وہ متعدد بار بیرونِ ملک سفر بھی کر چکی ہیں۔ لہٰذا ذہنی بیماری والا عنصر درست نہیں ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ملزمہ کی ذہنی بیماری کو کیس کی سماعت کے دوران اِس لیے لایا گیا تا کہ مقدمے کو طول دیا جا سکے۔
پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی شخص یا خاتون کسی بھی مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف سات ایام میں سزا کو کالعدم قرار دینے کی اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
ملزمہ کو سزائے موت
توہین رسالت کے مقدمے میں عدالت نے مقدمے کا ٹرائل مکمل ہونے پر خاتون سلمیٰ تنویر کو سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
رواں ہفتے 27 ستمبر 2021 کو لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج منصور احمد قریشی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جس قسم کا ذہنی مرض سلمیٰ تنویر کو لاحق تھا یہ قانونی طور پر پاگل پن کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق خاتون کا طبی معائنہ گرفتاری کے ایک سال بعد پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ سے کرایا گیا۔ میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں سلمٰی تنویر کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک ذہنی بیماری شیزوفرینیا کی مریضہ ہیں۔ اِس حالت میں ان پر کیس نہیں چل سکتا جس پر ملزمہ کا ٹرائل روک دیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ دو سال بعد2019 میں اسی بورڈ کی سفارش پر ان کا ٹرائل دوبارہ شروع کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزمہ کی ذہنی حالت درست نہ ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ تاہم ان کی بیماری کی نوعیت اتنی سنگین نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق قانون میں کم ذہنی بیماری میں سنگین جرم کرنے سے متعلق کوئی رعایت دستیاب نہیں اور دورانِ سماعت ملزمہ نے کہیں بھی اپنے بیان میں یہ نہیں کہا کہ جو تحریر ان سے منسوب کی گئی ہے وہ انہوں نے نہیں لکھی۔
’ماتحت عدالتوں کے جج دباؤ میں آ کر فیصلے کرتے ہیں‘
قانونی ماہر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سیف الملوک کہتے ہیں کہ پاکستان میں توہینِ مذہب اور مذہب سے متعلق کیسز میں اکثر ماتحت عدالتوں کے جج وکلا اور معاشرے کے بعض طبقات کے دباؤ میں آ کر فیصلے کرتے ہیں جس کے باعث انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سیف الملوک نے کہا کہ یہی وجہ ہےکہ ایسے کیس جب عدالتِ عالیہ یا عدالتِ عظمٰی میں آتے ہیں تو ملزمان کو بری کر دیا جاتا ہے۔
اس سے قبل توہینِ مذہب کے کئی مقدمات میں ماتحت عدالتوں سے ملزمان کو سزائیں ہو چکی ہیں جن کا تعلق دوسرے مذاہب سے ہوتا تھا۔
سلمٰی تنویر پہلی مسلمان خاتون ہیں جنہیں توہینِ مذہب کے کیس میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیمیں بار بار آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ رواں سال یورپی یونین نے ایک رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں مبینہ توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔