برطانیہ کی ملکہ الزبتھ 1952 میں تخت نشین ہوئیں تو انہیں ورثے میں لاکھوں ایسے افراد بطور رعایا ملے تھے جو برطانوی راج کے خلاف نبرد آزما تھے۔ آج ملکہ کی وفات پر برطانیہ کی سابق نوآبادیات میں جذبات بہت پیچیدہ ہیں، بہت سے لوگ اب بھی برہم ہیں۔
ملکہ کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ افریقہ، ایشیا، کیربیئن اور دوسرے خطوں میں ابھی بھی سرد مہری پائی جاتی ہے۔
ملکہ کی وفات کے بعد برطانوی نو آبادیاتی نظام کی میراث، افریقہ میں غلامی اور برطانیہ کے اداروں کے پاس موجود نو آبادیاتی علاقوں سے چرائے ہوئے قیمتی نوادرات تک پر بات کی جا رہی ہے۔
بہت سے افراد کے نزدیک ملکہ نے سات دہائیوں پر محیط اقتدار کے دوران ان تمام برطانوی نو آبادیاتی دور کی تکالیف اور مظالم کی نمائندگی کی ہے۔
کئی دہائیاں قبل ملکہ الزبتھ کو جب ان کے والد کی موت اور ان کے تخت نشین ہونے کی اطلاع دی گئی تو وہ اس وقت کینیا میں تھیں۔ کینیا سے تعلق رکھنے والی قانون دان ایلس موگو نے سوشل میڈیا پر 1956 کی ایک دستاویز شئیر کی۔اس برس ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کو تخت نشین ہوئے چار برس بیت چکے تھے اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف مقامی ماؤ افراد کی مزاحمت کے خلاف سخت برطانوی ردِعمل بھی عروج پر تھا۔
’مجھے سوگ نہیں منانا‘
اس دستاویز میں ’نقل و حرکت کی اجازت‘ کی شہ سرخی کے نیچے تحریر ہے کہ قانون دان ایلس موگو کی دادی کی طرح ایک لاکھ سے زائد کینیا کے باشندوں کو کیمپس میں حراست میں رکھا گیا تھا۔ ان افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے برطانوی حکام سے اجازت درکار ہوتی تھی۔
ملکہ الزبتھ کی وفات کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ایلس موگو نےسوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ’’ہم میں سے اکثر کے دادا یا دادی ظلم کا شکار ہوئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ’’مجھے سوگ نہیں منانا۔‘‘
’وہ سب سے مثالی شخصیت تھیں‘
کینیا کے صدر اہورو کینیاٹا کے والد کو ملکہ کے دور حکومت میں جیل دیکھنی پڑی تھی۔ وہ آگے جا کر 1964 میں ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔
اہورو نے باقی افریقی رہنماؤں کی طرح ماضی کو بھلاتے ہوئے کہا کہ ملکہ 20ویں اور 21ویں صدی کی سب سے مثالی شخصیت تھیں۔
ملکہ کی موت کے بعد بھی بعض خطوں میں عوام کے جذبات میں غصے کا عنصر موجود نظر آتا ہے۔ کچھ افراد نے غلامی پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ کچھ افراد کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو پائیدار اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔
’دولت کسی کے ساتھ بانٹی نہیں گئی‘
نیشنل کونسل آن ریپیریشنز آن جمیکا کے رکن برٹ سیموئیلز کا کہنا ہے کہ یہ اقوام کی جو مشترکہ دولت ہے، یہ دولت تو انگلینڈ کی ہے، یہ دولت کسی کے ساتھ بانٹی نہیں گئی۔
ملکہ الزبتھ کے دور میں افریقہ، کیربئین اور مشرق وسطیٰ میں درجنوں ممالک نے آزادی حاصل کی۔
دولتِ مشترکہ اور 56 ممالک
کچھ مؤرخین انہیں ایسی ملکہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جنہوں نے سلطنت کے پر امن طریقے سے کامن ویلتھ میں تبدیل ہونے کے عمل میں مدد کی۔
کامن ویلتھ یا دولتِ مشترکہ 56 ممالک کے رضاکارانہ اشتراک کا نام ہے ۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ملکہ کی وفات کے بعد عوامی سوگ یا دلچسپی کا عنصر نظر نہیں آیا۔
تنازعات کی ذمہ داری
مشرقِ وسطیٰ میں اکثر ممالک کے افراد ابھی بھی خطے میں سرحدیں کھینچنے اور موجودہ زمانے کے تنازعات کا ذمہ دار برطانیہ کو ٹھہراتے ہیں۔
ہفتے کو فلسطینی علاقے غزہ میں حکمرانی کرنے والی تنظیم ’حماس‘ کے رہنما نے بادشاہ چارلس سوم سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں ان برطانوی فیصلوں کی تصحیح کریں جن کی وجہ سے فلسطینیوں کو مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔
نسلی طور پر تقسیم ہونے والے قبرص میں ابھی بھی ایسے یونانی نسل کے افراد موجود ہیں جو 50 کی دہائی کے اواخر میں نو آبادیاتی دورِ حکومت کے خلاف چار سالہ گوریلا جنگ اور ان نو افراد کو برطانوی حکام کی جانب سے پھانسی دینے کے واقعے کو یاد کرتے ہیں، جس دوران خیال کیا جاتا تھا کہ ملکہ نے ان اقدامات پر بے اعتنائی برتی تھی۔
ایسوسی ایشن آف نیشنل آرگنائزیشن آف سائپرٹ فائٹرز کے صدر یانیس سپانوس کا کہنا ہے کہ جزیرے میں ہونے والے بہت سے سانحات کا ذمہ دار ملکہ کو سمجھا جاتا تھا۔
’دنیا میں بادشاہوں اور ملکاؤں کی کوئی گنجائش نہیں‘
بھارت میں برطانوی دور کی علامات اور مقامات کے ناموں کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بھارت نو آبادیاتی دور سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر دھیرن سنگھ نے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ موجودہ دنیا میں بادشاہوں اور ملکاؤں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ان کے بقول ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں رہتے ہیں۔
مکمل آزادی پر غور
کیربئین میں ملکہ کے بارے میں متضاد جذبات پائے جاتے ہیں۔ کچھ ممالک برطانوی فرماں روا کو بطور ریاستی سربراہ کے ہٹانے پر غور کر رہے تھے۔
جمیکا کے وزیرِ اعظم نے رواں برس پرنس ولیم کے دورے کے دوران کہا تھا کہ جزیرہ مکمل طور پر آزاد ہونے پر غور کر رہا ہے۔شہزادہ ولیم نے اس دورے کے دوران غلامی کے معاملے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
’انہوں نے کبھی بھی غلامی کے معاملے پر معافی نہیں مانگی‘
جمیکا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن ندین سپنس کا کہنا تھا کہ جمیکا کے معمر شہریوں کی ملکہ کے بارے میں ہمدردی حیران کن نہیں ہے کیوں کہ برطانوی حکام انہیں ہمیشہ ایک رحم دل ملکہ کے طور پر پیش کرتے تھے جو ہماری مدد گار ہے البتہ نوجوان شاہی خاندان کی چمک دمک پر توجہ نہیں دیتے۔
ندین سپنس کا کہنا تھا کہ جو واحد بات میں ملکہ کی وفات پر دیکھتی ہوں، وہ یہ ہے کہ وہ اگرچہ اب نہیں رہیں البتہ انہوں نے کبھی بھی غلامی کے معاملے پر معافی نہیں مانگی۔ انہیں اس بارے میں معافی مانگنی چاہیے تھی۔