رسائی کے لنکس

فورٹ ہُڈ مقدمے کی باضابطہ سماعت کا آغاز


استغاثہ: ’میجر ندال حسن نےدوسرے فوجیوں کو قصداً نشانہ بنایا، جب اُنھوں نے اُس عمارت کے اندر گولیاں چلانا شروع کیں، جہاں طالبان کےخلاف امریکی جنگ میں حصہ لینے کے لیے فوجی اہل کار افغانستان تعیناتی کے منتظر تھے‘

امریکی فوج کے وکیلِ استغاثہ کا کہنا ہے کہ فوجی سائکیاٹرسٹ جِن پر 2009ء میں ٹیکساس کے فورٹ ہُڈ میں شوٹنگ کے مہلک واقع کا الزام ہے، بقول اُن کے، ’زیادہ سے زیادہ فوجیوں کو ہلاک کرنا چاہتا تھا‘۔

پروزیکیوٹر، کرنل اسٹیو ہینرکس نے منگل کے روز کورٹ مارشل کو بتایا کہ میجر ندال حسن نے دوسرے فوجیوں کو قصداً نشانہ بنایا، جب اُنھوں نے اُس عمارت کے اندر گولیاں چلانا شروع کیں، جہاں طالبان کےخلاف امریکی جنگ میں حصہ لینے کے لیے فوجی اہل کار افغانستان تعیناتی کے منتظر تھے۔

ہینرکس نے یہ بات کورٹ مارشل کی کارروائی کے پہلے روز کہی، جو ممکنہ طور پر طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔

وکیل استغاثہ نے کہا کہ حسن نے ’اللہ اکبر‘ کی آواز بلند کی، جس کا عربی میں مطلب ’خدا سب سے بڑا ہے‘، اور پھر ’غیر مسلح، بے خبر اور پناہ سے محروم فوجیوں‘ پر فائر کھول دیا۔

حسن امریکہ میں پیدا ہونے والا مسلمان ہے۔ اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے سات منٹ تک فائرنگ کرتے ہوئے 100سے زائد راؤنڈ چلائے، جس میں 13 افراد ہلاک اور 32زخمی ہوئے۔

اپنے ابتدائی بیان میں، اُنھوں نے 13 فوجی عہدے داروں پر مشتمل جیوری کو بتایا کہ، ’ثبوت سے واضح ہو جائے گا کہ میں نے ہی شوٹنگ کی‘۔

اُنھوں نے مقدمہ سننے والے جج کو بتایا کہ وہ اپنے دفاع میں دو شہادتیں پیش کریں گے۔


پانچ نومبر 2009ء کو گولیوں کی بوچھاڑ کو رکوانے کے لیے آرمی پولیس نے 42 برس کے حسن پر گولی چلائی، جن کا نچلا دھڑ مفلوج ہے اور وہ ویل چیئر استعمال کرتے ہیں۔

حسن نے یہ دلیل پیش کرنا چاہی تھی کہ گولیاں چلانا جائز تھا تاکہ افغانستان میں طالبان لیڈروں کی زندگیاں بچ جائیں۔ لیکن، جون میں جج نے اس دلیل کو رد کر دیا تھا کہ اسے اپنے دفاع کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ فورٹ ہُڈ میں موجود فوجیوں سے اُنھیں کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔

جج نے اُنھیں اپنے مذہبی اعتقاد کے بارے میں بیان بازی سے بھی روکا تھا۔

مقدمے میں سائکیاٹرسٹ اپنی وکالت خود کرنے کے خواہاں ہیں، اور یوں جن فوجیوں کو زخمی کیا اُنہی سے جرح کریں گے۔

حسن کے والدین کا تعلق فلسطین سے ہے۔ اُن پر قتل کا الزام ہےاور ممکنہ طور پر اُنھیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔

امریکی فوج کے ریٹائرڈ اسٹاف سارجنٹ، الونزو لُنزفورڈ کے الفاظ میں، وہ نمودار ہوئے، اسلحہ نکالا، اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور بے گناہ، غیر مسلح فوجی اہل کاروں پر فائر کھول دیا۔

لیزا وِنڈسر امریکی فوج کی ایک سابق جج اور ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ اُن کے بقول، ’جی ہاں، میجر حسن شہادت کے ضابطوں سے نا بلد ہیں۔ وہ اٹارنی نہیں ہیں۔ اِس سے قبل اُن کا کسی مقدمے سے واسطہ نہیں پڑا‘۔

لیزا کے الفاظ میں: ’اس لیے، جرح کے مرحلے کے دوران اُن کے لیے ضابطہٴ کار کی حدود میں رہنا ایک چیلنج ہوگا‘۔

الونزو لُنزفورڈ نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ مقدمے کے آغاز میں اتنا وقت لگ گیا ہے۔ اس لیے، احتساب کا لمحہ آنا، ایک مثبت بات ہے۔
XS
SM
MD
LG