رسائی کے لنکس

سندھ میں لاک ڈاؤن: سیاسی الزام تراشی کے شور میں متاثرہ طبقوں کی کون سنے گا؟


پانچ بچوں کے والد سلیم انور کراچی کی مشہور اقبال کلاتھ مارکیٹ میں جوس کارنر چلاتے ہیں۔ ان کی چھوٹی سی دکان ہونے کے باجود وہ اس قدر کما لیتے ہیں کہ اُن کے روزمرہ کے اخراجات آسانی سے پورے ہو جاتے ہیں۔

لیکن کرونا وائرس نے جہاں دیگر لوگوں کو متاثر کیا ہے وہیں ان کے حالات بھی بمشکل سنبھلے ہیں اور اب چوتھی لہر کے باعث مارکیٹیں اور کاروباری مراکز دوبارہ بند کرنے کے اعلان کے بعد انہیں بھی اپنی دکان نو روز متواتر بند کرنا پڑ رہی ہے۔

ان مشکلات کی وجہ سے اُن کے لیے پریشانی یہ ہے کہ دکان اور مکان کا کرایہ، بجلی کا بل اور پھر گھر کے اخراجات اور بچوں کی پڑھائی کے اخراجات وہ اگلے ماہ کس طرح چلا پائیں گے جب کہ پچھلے تین لاک ڈاؤن میں وہ اپنی جمع پونجی خرچ کر چکے ہیں۔

صرف سلیم ہی نہیں بلکہ ایسے لاکھوں دیہاڑی دار افراد اس گو مگو کی کیفیت سے گزر رہے ہیں کہ وہ کرونا وبا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات کا کس طرح مقابلہ کریں اور آخر کب تک؟ اس بے یقینی کی صورتِ حال کا سامنا طبی ماہرین سے لے کر حکومتی اداروں اور پھر عام عوام سبھی کو ہے جس کا حل اب تک نہیں مل پا رہا۔

کرونا پر سیاسی بیان بازی ایک بار پھر عروج پر

ایک جانب عوام پر اس وبا کے مالی اور معاشی اثرات نمایاں ہیں تو دوسری جانب سیاسی محاذ بھی خوب گرم ہے جس میں سیاست دان لاک ڈاؤن پر ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں۔

جمعے کی شام کو سندھ حکومت کی جانب سے ٹاسک فورس کے مشورے پر صوبے میں زیادہ پابندیوں کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تو فوری طور پر وفاقی وزیر فواد چوہدری کا بیان سامنے آیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے فیصلے کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت ایسے اقدام کے خلاف ہے جس سے عام آدمی کا کاروبار متاثر ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت اس ضمن میں ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرےکہ عام آدمی کا روزگار اور کاروبار کم سے کم متاثر ہو۔

اس کے جواب میں سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت کے ترجمان کی جانب سے اعتراض بے معنی ہے کیوں کہ پابندیوں سے متعلق نوٹی فکیشن کا ڈرافٹ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کو بھی بھجوایا گیا تھا۔

ان کے مطابق این سی او سی نے صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر صوبائی حکومت کو لاک ڈاون لگانے سے کہیں نہیں روکا جب کہ بندرگاہ، اسٹاک ایکسچینج، اور ایکسپورٹ انڈسٹری کو پابندیوں سے اسی لیے مستثنیٰ رکھا گیا ہے کیوں کہ حکومت کو معاشی مسائل کا بھی ادراک ہے۔

سیاسی تکرار، الزامات اور ان کے جوابات کا سلسلہ اتوار کے بعد پیر کو بھی جاری ہے۔

"احتیاطی تدابیر کو اختیار نہ کرنے پر لاک ڈاون کا نفاذ ضروری تھا"

طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ سماجی فاصلے برقرار نہ رکھنے، ماسک کی پابندی پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے کرونا کیسز کی ایک اور لہر دیکھنے میں آئی اور خاص طور پر کراچی میں ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیلا۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے مطابق بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پابندیوں کا نفاذ ضروری ہو گیا تھا اور اگر یہ نہ کیا جاتا تو سرکاری اور نجی اسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ ناقابلِ بیان حد تک بڑھ جائے گا۔

پی ایم اے کے مطابق اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی میں کرونا کے لیے مختص نجی اسپتالوں کے 95 فی صد اور سرکاری اسپتالوں کے 75 فی صد بیڈز بھرے ہوئے ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ حکومت کی جانب سے کرونا وبا کی آنے والی لہروں کی کوئی مناسب تیاری نہیں کی گئی تھی۔

سابق وفاقی وزیر اور ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ کرونا وبا سے نمٹتے ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس دوران ایک تفصیلی سروے کر کے انتہائی غریب اور دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد کا ایک ڈیٹا مرتب کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کام قومی سطح پر احساس پروگرام کے تحت کیا جانا چاہیے تھا تاکہ لاک ڈاؤن کی صورت میں ایسے افراد کی مالی مدد کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے شہروں کو بند کرنا ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے تھی جو کہیں نظر نہیں آتی۔

ڈاکٹر پاشا کے خیال میں ایک جانب ڈیٹا اکھٹا کرنے اور غریب ترین افراد تک مالی مدد پہنچانے میں تیزی دیکھنے میں نہیں آئی جب کہ دوسری جانب کرونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن بھی سست روی کا شکار ہے۔

ان کے بقول ان وجوہات کے پیچھے حکومتی بدانتظامیاں اور خراب طرزِ حکومت ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں برابر کی شریک ہیں۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ وقت ضائع کرنے اور اس دوران کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھانے کے بعد اب حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیشگی انتظامات نہ کرنے کی وجہ سے کراچی میں ویکسی نیشن سینٹرز پر عوام کا رش ہے اور جب وہاں صورتِ حال خراب ہوئی تو حکومت کو خیال آیا کہ ویکسی نیشن سینٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

سماجی اور معاشی ماہرین کے بقول کرونا کی چوتھی لہر میں سیاسی تکرار اور الزام تراشی کے درمیان اصل نقصان سلیم انور جیسے دیہاڑی دار افراد کا ہو رہا ہے جو ایک جانب وبا کی وجہ سے پریشان ہے تو دوسری جانب بدانتظامی اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لیے مناسب سہولیات نہ ہونے سے مشکلات سے دوچار رہتا ہے۔


  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG