انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہناہے کہ فرانس میں پولیس اکثر اوقات عرب نسل سے تعلق رکھنے والے افراد اور افریقی نوجوانوں کو کسی وارنٹ کے بغیر گرفتار اور بعض اوقات انہیں اپنی شناخت کی بنا پر پوچھ گچھ کے لیے روک لیتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہناہے کہ نسلی بنیاد پر کی جانے والی ان کارروائیوں سے برہمی اور اشتعال کو ہوا مل رہی ہے اور اقلیتوں نوجوانوں اور حکام کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہورہاہے۔
ایک نوجوان کا کہناہے کہ فرانسیسی پولیس کے اہل کار اسے محض اس بنا پر اپنی شناخت کرانے کے لیے روک لیتے ہیں کیونکہ وہ عرب ہے۔ اس کا کہناہے کہ چلو ایک بار تو روکنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جب اسے دوسری، تیسری اور چوتھی بار بلکہ بار بار ہر جگہ روکا جاتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کئی بہت بڑی جیل میں زندگی گذار رہاہے۔
یہ نوجوان، اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ان درجنوں نوجوانوں میں شامل ہے جس سے ہیومن رائٹس واچ نے پیرس، لیون اور للی کے شہروں میں انٹرویوز کیے ۔
واچ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عرب اور افریقی نسل کے نوجوانوں کو، جن میں سے بعض کی عمریں محض 13 سال کے لگ بھگ ہیں، اکثر اوقات فرانسیسی پولیس کا ہدف بنتے ہیں۔ اگرچہ وہ بظاہر کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے لیکن پولیس ان سے پوچھ گچھ کرتی ہے اور تلاشی لیتی ہے۔
2009ء میں ایک اور مطالعاتی رپورٹ سے پتا چلا تھا کہ فرانسیسی پولیس سفید فاموں کی نسبت عرب اور سیاہ فام باشندوں کو زیادہ روکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر اقلیتی نوجوان فرانس کی مضافاتی آبادیوں میں رہتے ہیں جہاں تارکین وطن کی تعداد نمایاں طورپر زیادہ ہے اور وہ بے روزگاری اور جرائم کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔
2005ء میں تعاقب کے دوران پولیس کے ہاتھوں دو اقلیتی نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد مضافاتی علاقوں میں بڑے پیمانےپر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
صدارتی انتخابات سے محض چند ہفتے قبل تک جرائم اور تارکین وطن ووٹروں کے نزدیک سے سے اہم مسائل ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں صدر نکولس سارکوزی کی جیت میں جزوی طور پر ان کی شخصیت کا وہ پہلو بھی تھا جس کا تعلق امن وامان کے قیام سے ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پولیس کی چیکنگ کے لیے واضح اور سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے عہدے دار اس سلسلے میں فرانسیسی حکام سے ملاقاتیں کرچکے ہیں ۔ تنظیم کا کہناہے کہ حکام کو اس مسئلے کا احساس ہے اور وہ اسے حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔