بلھے شاہ کی نگری، قصور میں آنکھ کھولنے والی، اللہ وسائی نے جب چھ برس کی عمر میں موسیقی میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا تو ان کی والدہ انہیں استاد بڑے غلام علی کے پاس لے گئیں، جہاں انہوں نے موسیقی کے کلاسیکل اسرار و رموز سیکھے۔
نو برس کی عمر میں ان کی آواز نے پنجابی موسیقار غلام احمد چشتی کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، جنہوں نے نعتیں، غزلیں اور لوک گیت خاص طور پر اللہ وسائی کے لیے کمپوز کیے۔
کچھ عرصے بعد ان کا خاندان کلکتہ منتقل ہو گیا، جہاں معروف گلوکارہ مختار بیگم نے اللہ وسائی اور ان کی دو بہنوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ مختلف پروڈیوسروں کو ان کے نام بھی تجویز کیے۔
1935ء میں کے۔ ڈی۔ مہرا کی فلم ’پنڈ دی کُڑی‘ میں بےبی نورجہاں نے اپنی بہن کے ساتھ اداکاری کا آغاز کیا۔ اس کے بعد فلم ’مصر کا ستارہ‘ میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کی؛ اور1937ء میں بننے والی فلم ’ہیر سیال‘ میں ہیر کے بچپن کا کردار ادا کیا۔
نورجہاں کلکتہ سے لاھور چلی گئیں اور فلم ’گل بکاؤلی کے لیے گیت گائے۔
نورجہاں نے اداکاری کو خیرباد کہنے کے بعد 1960ء میں ’سلمیٰ‘ فلم کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو صرف پلے بیک سنگنگ کے لیے مخصوص کر دیا اور پاکستان اور بھارت میں مختلف زبانوں میں تقریباً 10000 گیت گائے۔