واشنگٹن —
دنیا کے آٹھ بڑے اور امیر ممالک نے شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کی "سخت ترین الفاظ" میں مذمت کی ہے۔
جمعرات کو لندن میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے ایک بیان میں 'جی-8' ممالک کے وزرائے خارجہ نے شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ "مزید اشتعال انگیز اقدامات کرنے" سے باز رہے۔
بیان کے مطابق "وزرائے خارجہ نے شمالی کوریا کی حالیہ دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نتیجے میں پیانگ یانگ حکومت کو عالمی برادری میں مزید تنہائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا"۔
شمالی کوریا کی حالیہ دھمکیاں اور شام کی داخلی صورتِ حال اجلاس کے ایجنڈے میں سرِ فہرست رہے لیکن تنظیم کے رکن ممالک دو سال سے جاری شام کےبحران پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل اور شمالی کوریا کےمسئلے پر واضح ردِ عمل متعین کرنے میں ناکام رہے۔
'جی-8' میں شامل ممالک - امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، کینیڈا اور روس – کے وزرائے خارجہ نے اپنے اختتامی بیان میں شام کے تنازع کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ امدادی اداروں کو شامی عوام تک محفوظ اور موثر رسائی فراہم کرے تاکہ ان کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکیں۔
شام کی حزبِ اختلاف کے نمایاں اتحاد 'سیرین نیشنل کونسل' کے ایک وفد نے بھی لندن اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کیں اور انہیں شامی عوام کو مزید امداد دینے اورباغیوں کو اسلحے کی فراہمی پر قائل کرنے کی کوشش کی۔
تاہم اجلاس کے اختتامی بیان میں تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے شامی باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔
خیال رہے کہ 'جی-8' کے دو رکن، برطانیہ اور فرانس یورپی یونین کی طرف سے شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی کو ختم کرنے پر اصرار کرتے آئے ہیں تاکہ باغیوں کی مدد کی جاسکے۔
لیکن روس اور جرمنی ایسے کسی بھی اقدام کے مخالف ہیں اور اُن کا موقف ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیار شام میں اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جس سے خطے میں جاری تنازع مزید بھڑک سکتا ہے۔
پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوامِ متحدہ کی خیر سگالی سفیر اور 'ہالی ووڈ' اداکارہ انجلینا جولی نے بھی 'جی-8' وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کیا اور عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں تنظیم کے رکن ممالک نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے جوہری مذاکرات کی ناکامی پر بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
جمعرات کو لندن میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے ایک بیان میں 'جی-8' ممالک کے وزرائے خارجہ نے شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ "مزید اشتعال انگیز اقدامات کرنے" سے باز رہے۔
بیان کے مطابق "وزرائے خارجہ نے شمالی کوریا کی حالیہ دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نتیجے میں پیانگ یانگ حکومت کو عالمی برادری میں مزید تنہائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا"۔
شمالی کوریا کی حالیہ دھمکیاں اور شام کی داخلی صورتِ حال اجلاس کے ایجنڈے میں سرِ فہرست رہے لیکن تنظیم کے رکن ممالک دو سال سے جاری شام کےبحران پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل اور شمالی کوریا کےمسئلے پر واضح ردِ عمل متعین کرنے میں ناکام رہے۔
'جی-8' میں شامل ممالک - امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، کینیڈا اور روس – کے وزرائے خارجہ نے اپنے اختتامی بیان میں شام کے تنازع کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ امدادی اداروں کو شامی عوام تک محفوظ اور موثر رسائی فراہم کرے تاکہ ان کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکیں۔
شام کی حزبِ اختلاف کے نمایاں اتحاد 'سیرین نیشنل کونسل' کے ایک وفد نے بھی لندن اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کیں اور انہیں شامی عوام کو مزید امداد دینے اورباغیوں کو اسلحے کی فراہمی پر قائل کرنے کی کوشش کی۔
تاہم اجلاس کے اختتامی بیان میں تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے شامی باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔
خیال رہے کہ 'جی-8' کے دو رکن، برطانیہ اور فرانس یورپی یونین کی طرف سے شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی کو ختم کرنے پر اصرار کرتے آئے ہیں تاکہ باغیوں کی مدد کی جاسکے۔
لیکن روس اور جرمنی ایسے کسی بھی اقدام کے مخالف ہیں اور اُن کا موقف ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیار شام میں اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جس سے خطے میں جاری تنازع مزید بھڑک سکتا ہے۔
پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوامِ متحدہ کی خیر سگالی سفیر اور 'ہالی ووڈ' اداکارہ انجلینا جولی نے بھی 'جی-8' وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کیا اور عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں تنظیم کے رکن ممالک نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے جوہری مذاکرات کی ناکامی پر بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔