رسائی کے لنکس

الجزیرہ نیٹ ورک پر بظاہرپابندی لگانےکے اسرائیلی عزائم، آزادی صحافت کے گروپوں کی جانب سے مخالفت


الجزیرہ کے نمائندے وائل الدحدودح اپنےہلاک ہونے والے تین بچوں میں سے ایک کے جسد خاکی کے ساتھ جو دیر البلاح کے الاقصی اسپتال میں نوصیرات کیمپ میں اسرائیلی حملے میں اان کی بیوی کے ساتھ مارے گئے تھے۔
الجزیرہ کے نمائندے وائل الدحدودح اپنےہلاک ہونے والے تین بچوں میں سے ایک کے جسد خاکی کے ساتھ جو دیر البلاح کے الاقصی اسپتال میں نوصیرات کیمپ میں اسرائیلی حملے میں اان کی بیوی کے ساتھ مارے گئے تھے۔

گزشتہ ہفتے، اسرائیلی حکومت نے ہنگامی ضوابط کی منظوری دی ہے جو اسرائیل میں الجزیرہ کو بلاک کرنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

یروشلم پوسٹ کے مطابق، وزارت مواصلات نے کہا کہ یہ ضوابط جنگ کے دوران ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی سرگرمیوں کو روکنے کی اجازت دیں گے جو ریاست کی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔"

اسرائیل کےوزیر مواصلات شلوما کرہی نے الجزیرہ کو حماس کے لیے "پروپیگنڈہ کا ماؤتھ پیس" قرار دیا۔

اس دوران امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے قطر کے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ غزہ کے بارے میں الجزیرہ کی بیان بازی پر لگام ڈالیں۔

الجزیرہ کو قطرکی حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے لیکن وہ آزادانہ طور پر کام کرتا ہے۔

آزادی صحافت کے گروپوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ الجزیرہ کو بند کرنے سے باز رہے۔

سی پی جے کے منصور نے ایک بیان میں کہا، "اختیارات کا احتساب کرنے کے لیے میڈیا کی آوازوں کی کثرت ضروری ہے، خاص طور پر جنگ کے وقت۔"

ایک اور ادارے، ’free expression group Article 19‘کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کوئن میک کیو نےوائس آف امریکہ کو بتایا کہ "اس ایجنسی کو بند کرنا اور اسے ہٹانا آزادی اظہار اور خطے میں میڈیا کے لیے ایک بہت ہی ہولناک ا قدم ہو گا جو دیگر قسم کی پابندیوں کے سیلاب کے لیےکے دروازے کھول دے گا۔"

لبرل اسرائیلی اخبار" ہارٹز "نے ہفتے کے آخر میں ایک اداریے میں ان ضابطوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "ریاست کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ عوام کے لیے یہ فیصلہ کرے کہ کون سی معلومات سامنے لائی جا سکتی ہیں، جیسا کہ چین اور ایران جیسے ممالک میں کیا جاتا ہے۔"

الجزیرہ نے فوری طور پر وائس آف امریکہ کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

الجزیرہ کے غزہ کے بیورو چیف وائل الدحدوح دوبارہ آن ایئر

اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے اخاندان کے کئی افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد، الجزیرہ کے غزہ کے بیورو چیف وائل الدحدوح دوبارہ آن ایئر رپورٹنگ کر رہے تھے۔

منگل کی رات کو، الدہدوح کی بیوی، بیٹا اور بیٹی وسطی غزہ میں نصیرات کیمپ پر اسرائیل کے ا یک فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔الدہدوح کا پوتا اور خاندان کے آٹھ دیگر افراد بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے۔

ان کا خاندان 13 اکتوبر کو اسرائیل کی طرف سے شمالی غزہ میں رہنے والوں کو جنوب کی طرف جانے کی وارننگ کے بعد وہاں سے چلا گیاتھا۔

حماس اسرائیل جنگ: امریکی یہودیوں میں تقسیم کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:43 0:00

یہ سانحہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرتا ہے، جو 7 اکتوبر کو عسکریت پسند گروپ کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں 1400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

فضائی حملے کے بعد، الجزیرہ نے فوٹیج نشر کی جس میں وائل الدہدوح کو بدھ کے روز دیر البلاح کے الاقصیٰ اسپتال میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا جہاں ان کی بیوی، بیٹا اور بیٹی اور خاندان کے دوسرے ہلاک ہونے والے افراد مردہ خانے میں تھے۔

الدہدوح نے اسپتال سے باہر جاتے ہوئے الجزیرہ کو بتایا،"جو ہوا وہ واضح ہے۔ یہ بچوں، خواتین اور عام شہریوں پر ٹارگٹ حملوں کا ایک سلسلہ ہے۔ میں ابھی یرموک سے اس طرح کے حملے کے بارے میں خبر دے رہا تھا، اور اسرائیل نے نصیرات سمیت بہت سے علاقوں کو نشانہ بنایا ۔"

قطر کے نیٹ ورک نے ایک بیان میں کہا کہ الجزیرہ "غزہ میں بے گناہ شہریوں کو اندھا دھند نشانہ بنانے اور ان کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے، جس کی وجہ سے وائل الدہدود ح کا خاندان اور لاتعداد افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔"

غزہ میں الجزیرہ کی نامہ نگار یومنہ السید نے براڈکاسٹر کو بتایا، "وائل کے خاندان کے بارے میں رپورٹ کرنا اور یہ دیکھنا دل دہلا دینے والا ہے کہ وہ کتنے ٹوٹ چکے ہیں۔ وہ سب کو تسلی دیتے ہیں۔ وہ ہم سے نہ صرف ایک بیورو چیف کے طور پر بلکہ ایک بڑے بھائی کی طرح بات کرتے ہیں۔"

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، یا CPJ کے مطابق جمعرات تک، کم از کم 27 صحافی اس جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔ ان میں 22 فلسطینی، چار اسرائیلی اور ایک لبنانی تھا۔

اسرائیل میں سابق امریکی سفیر جیمز کننگھم نے وائس آف امریکہ کو بتایا"مجھے بہت سارے صحافیوں کو کریڈٹ دینا ہے جو بہت بہادر ہیں اور وہاں کے واقعات کی کوریج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔"

سی پی جے نے کہا کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور اس کےکسی زمینی حملے کے خطرے کی وجہ سے غزہ میں صحافیوں کو خاص طور پر زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے جمعرات کو کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 7000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ سی پی جے کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کوآرڈینیٹر، شریف منصور نے وی او اے کو بتایا، "غزہ میں فوجی تصادم کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج فضائی حملوں یا جھڑپوں کی کوریج کرتے ہوئے مارے جانے کے خطرے سے خود اپنی حفاظت کرناہے -"

منصور نے بعد میں مزید کہا کہ "غزہ میں صحافیوں نےجو قیمت ادا کی ہےوہ بے مثال ہے اوروہ اسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں ہلاکت خیز خطروں کا سامنا ہے۔"

(وائس آف امریکہ کےلیام سکاٹ کی رپورٹ)

فورم

XS
SM
MD
LG