ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں افغانستان کے استحکام پر حکمت عملی کا اختلاف وہ بنیادی فرق ہے جو 2014ء تک اس ملک سے امریکی فوج کی واپسی میں مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ۔ امریکی افواج کی قیادت ایڈمرل مائیک مولن سے نئے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کو منتقل ہو چکی ہے۔ عراق اور افغانستان میں خدمات انجام دینے والے نئے امریکی فوجی سربراہ کے لیے پاکستان کےدفاعی اداروں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق افغانستان سےامریکی افواج کا انخلا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
امریکہ کے نئے چیرمین جوائنٹ چیفز آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی عراق کی دو جنگوں اور افغانستان کی جنگ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں امریکی فوج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا ہے جب امریکی حکومت دفاعی شعبے میں 450ارب ڈالر کی کٹوتی کے لئے کوشش کر رہی ہیں۔
امریکہ کے دفاعی حلقوں میں جنرل ڈیمپسی کو ایک کامیاب کمانڈر ، دانشور اور دفاعی حکمت عملی کے ماہر کے طور پر قابل احترام سمجھا جاتا ہے ۔ ایک افسر جومیدان جنگ کا نکتہ نظر واشنگٹن کے پالیسی سازوں تک پہنچاتا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت اس بات کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ امریکی فوج پچھلے دس سال کی مسلسل جنگ کے مرحلے سے نکل کر ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جس میں اسے اپنے آپ کو نئی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
امریکی فوج کے نئے سربراہ کا ایک اور بڑا چیلنج پاکستان سے پیچیدہ تر ہوتے تعلقات کو قائم رکھنا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک لمبے عرصے سے امریکہ کا اتحادی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں آنے والی کشیدگی دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں مگرماہرین کا کہنا ہے کہ تعلقات کو معمول میں آنے میں ابھی وقت لگ سکتا ہے
امریکی فوج کے سبکدوش ہونےو الے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے افغانستان کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے اپنے اداروں کے سپرد کرنے کو ایڈمرل مارٹن ڈیمپسی کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیاہے ۔۔
ان کا کہناتھا کہ اس عبوری دور کو تکمیل تک پہنچانا،اور یہ یقینی بنانا کہ سیکیورٹی کے معاملے میں جو برتری ہم نے حاصل کی وہ بدعنوانیوں یا قانون کی بالادستی کے فقدان کی وجہ سے ضائع نہ ہو جائے ۔ جس کی وباء پورے افغانستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری حکمت عملی درست ہے ، ہمیں صرف اس پر عمل پیرا رہنا ہوگا۔
امریکی فوجی دستے سن 2014ءتک افغانستان میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں مقامی فورسز کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔