ایسے میں جب شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں اور شدت پسند گروہوں کے خلاف پاک فوج کی کارروائی جاری ہے اور اِسی سال کے اواخر تک افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ہونا ہے، پاکستانی فوج کے سربراہ، جنرل راحیل شریف نے اپنے چھ روزہ دورہٴامریکہ میں اتوار اور پیر کے روز امریکی سینٹرل کمانڈ، فلوریڈا میں اعلیٰ فوجی حکام سے ملاقاتیں جاری رکھیں۔
پیر کے روز، سینٹکام کے کمانڈر، جنرل آسٹن سے ملاقات کے علاوہ، اُنھوں نے ’راؤنڈ ٹیبل کانفرنس‘ میں شرکت کی۔
امریکی محکمہٴخارجہ کے ترجمان نے پیر کے روز بتایا کہ جنرل راحیل کا دورہ اہمیت کا حامل ہے، جس دوران اُن کی اعلیٰ فوجی، نیشنل سکیورٹی کونسل کے اہل کاروں، محکمہٴخارجہ کے حکام کے علاوہ کانگریس کے لیڈروں سے ’وسیع تر امور پر اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوں گی۔‘
روزانہ کی بریفنگ میں، ایک سوال کے جواب میں، سینئر ترجمان نے کہا کہ ’اب تک جنرل راحیل نے اہم ملاقاتیں کی ہیں، جب کہ اُن کا دورہ جاری ہے۔‘
یہ معلوم کرنے پر کہ کن امور پر بات چیت متوقع ہے، ترجمان نے کہا کہ ’امریکہ پاکستان کی وسیع تر معاملات پر بات چیت جاری رہتی ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’فوج کے سربراہ کلیدی حیثیت کے فرد ہیں، جس سطح کے مکالمے کی بہت اہمیت ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ اب تک کی ملاقاتوں میں، شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف جاری پاکستانی فوج کی کارروائی پر سودمند بات چیت ہوئی، انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی اور سرحد کی سکیورٹی کا معاملہ سامنے آیا۔۔۔۔‘
بقول محکمہٴخارجہ ترجمان، دہشت گردی سے نمٹنے کے سلسلے میں پاکستان امریکہ کا ایک قریبی اتحادی ہے؛ اور، دونوں ملکوں کے درمیان ڈائلاگ جاری رہتا ہے۔
پاکستانی ذرائع کے مطابق، منگل کے روز، جنرل راحیل پینٹاگان کا دورہ کریں گے۔ جہاں وہ اعلیٰ امریکی عسکری قائدین سے ملاقات کے ساتھ ساتھ، چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارٹن ڈیمپسی سے ملاقات کریں گے۔
اتوار اور پیر کے روز، جنرل راحیل نے فلوریڈا میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ سے ملاقات جاری رکھی۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان امریکہ تعلقات، افغانستان اور علاقائی اور بین الاقوامی امور کا جائزہ پیش کیا گیا۔
ادھر، آئی ایس پی آر کے ایک اخباری بیان میں بتایا گیا ہے کہ تمپا میں ہونے والی بات چیت میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ضرب عضب کے تحت تمام گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی جاری ہے‘۔
مزید یہ کہ، بات چیت میں، بھارت پاکستان سرحد سے متعلق ’معاملے کو بھی اٹھایا گیا‘۔
دوسری طرف، تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ معاملہ بھی خاصا اہم ہے کہ ایسے شدت پسند یا گروہ جو ’ضرب عضب‘ کے نتیجے میں پاکستان سے افغانستان چلے گئے ہیں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ پھر وزیرستان کا رخ نہیں کریں گے۔ ذرائع کے مطابق، یہ بات تمام فریق کے مفاد میں ہے، جس میں افغانستان کو خصوصی دلچسپی ہے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ عوامی سطح پر طویل المدتی تعلقات استوار کرنے کا حامی ہے، جب کہ وہ امداد یا ہتھیاروں کی فراہمی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کا معاملہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے، ساتھ ہی، کوئی خلا رہ جانے کی صورت میں علاقے کے مفادات متاثر ہونے یا ان کے دفاع کا معاملہ بھی اہم ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان امریکہ کے درمیان ماضی میں اعتماد کے فقدان کا جو عنصر پایا جاتا تھا، اُس حوالے سے اب تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے۔
ماضی میں، امریکہ، خصوصی طور پر،حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ ادھر، پاکستان کے لیے ڈرون حملوں کا معاملہ اہم ہے۔
تجزیہ کار، حال ہی میں افغانستان کے نئے صدر کے دورہٴپاکستان اور باہمی بیانات کے اجرا کو، علاقے میں خصوصی اہمیت کی حامل پیش رفت قرار دیتے ہیں۔
محکمہٴخارجہ کی پیر کے روز کی پریس بریفنگ میں ترکمانستان۔بھارت گیس پائپ لائن پر بھی سوال کیا گیا، جس مشترکہ معاہدے پر چار ملکوں نے دستخط کیے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ تاہم، ترجمان نے فوری طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔