سپریم کورٹ میں پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدِت ملازمت میں توسیع کے معاملے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ دس سال پہلے ریٹائر ہونے والے جرنیل کو بھی آرمی چیف تعینات کرنے پر آئین میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے۔
گزشتہ روز اعلیٰ عدالت نے جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کا حکومتی نوٹی فکیشن معطل کر دیا تھا۔
بدھ کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کا لیٹر عدالت میں پیش کیا جس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ اور اٹارنی جنرل کے درمیان طویل مکالمے ہوئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرمی چیف کی تقرری کے نوٹی فکیشن میں مدت ملازمت کا ذکر نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مدت کا ذکر ایک کنونشن میں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا "اگر کنونشن ختم ہو گئی تو پھر کیا ریٹائر ہو جائیں گے؟" جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمومی طور پر تین سال بعد آرمی چیف سروس برقرار نہیں رکھتے۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا " کیا وزیرِ اعظم ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ تعینات کر سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا آئین کے مطابق ریٹائرڈ افسران کی آرمی چیف تعیناتی پر پابندی نہیں۔ جس پر جسٹس منصور نے کہا آئین میں یہ بھی نہیں لکھا کہ آرمی چیف کا تعلق فوج سے ہونا چاہیے، ایسے تو آپ کو بھی آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس طرح تو آپ دس سال قبل ریٹائرڈ جرنیل کو آرمی چیف تعینات کر دیں گے جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ دس سال پہلے ریٹائر ہونے والے جرنیل کو آرمی چیف تعینات کرنے پر آئین میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ "آرمی چیف کو توسیع کی ضرورت ہی نہیں، نوٹی فکیشن کے مطابق وہ ہمیشہ آرمی چیف رہیں گے، کیا جنرل باجوہ کو آگاہ کیا گیا کہ اُنہیں کتنے سال کے لیے تعینات کیا گیا؟"
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کب ختم ہو رہی ہے؟ جس پر ان کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ جمعرات کی رات 12 بجے آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہوجائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا "اٹارنی جنرل تو کہتے ہیں جنرل ریٹائر نہیں ہوتا۔"
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آرمی چیف کو دوبارہ تعینات کیا ہے تو صاف بتائیں۔اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی تعیناتی کا نیا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کو مدت مکمل ہونے پر دوبارہ تعینات کیا گیا ہے۔
'کسی نے کچھ بھی نہیں دیکھا'
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا پرانے نوٹی فکیشن میں تعیناتی کا ذکر تھا نئے میں توسیع کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نوٹی فکیشن کے مطابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو محدود کیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ جو سمری صدر کو بھجوائی گئی تھی اس میں آئین کے آرٹیکل 243 کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہا کسی نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ آئین کی شق 243 میں تقرری کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے وزیرِ اعظم کے مشورے پر نوٹی فکیشن جاری ہی نہیں کیا، آپ نے خود کہا تھا ریٹائرمنٹ اور توسیع الگ الگ معاملات ہیں۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست گزار ریاض حنیف راہی کی دائر درخواست پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی شامل ہیں۔
'ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا '
چیف جسٹس نے درخواست گزار کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ "راہی صاحب آپ کل کہاں رہ گئے تھے۔ آپ تشریف نہیں لائے اور ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی اور یہ خبریں چلتی رہیں کہ کہیں ہم نے از خود نوٹس لے لیا" جس پر ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا "ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ تشریف رکھیں۔"
اٹارنی جنرل انور منصور خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی طرف سے ماہر قانون فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں۔ حکم نامے کے مطابق، کابینہ کے صرف 11 ارکان نے آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی منظوری دی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ جس شق میں ترمیم کر کے آگئے ہیں وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کابینہ کے منگل کو کیے گئے فیصلوں کے بارے میں دستاویز عدالت میں جمع کرائیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جنرلز مدت ملازمت میں توسیع لیتے رہے، اس معاملے پر پہلے کبھی کسی نے سوال نہیں اٹھایا، اب سوال اٹھایا ہے تو جائزہ لینے دیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق، صدرِ مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں اور وہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے، کیا تعیناتی کی مدت کا بھی ذکر ہے؟ اور کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پر قانون خاموش ہے اور آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ یہ واضح ہے کہ آرمی چیف تعیناتی کی سفارش وزیر اعظم نے کرنی ہے اور کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو دو بار معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا؟
اٹارنی جنرل نے دلائل کے دوران کہا کہ آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے۔ اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جا سکے تو دو ماہ کی توسیع دی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے۔ اپنے دلائل کے دوران اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔ چیف جسٹس کی بات پر کمرۂ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون کی عدالت ہے یہاں شخصیات معنی نہیں رکھتیں، جو کام قانونی طور پر درست نہیں اسے کیسے ٹھیک کہہ سکتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض اوقات سختی سے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے اور عدالت کو قانون پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات کی صبح تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست میں آئینی اور قانونی نکات اٹھائے ہیں۔ میرا کسی کے ساتھ ذاتی عناد نہیں ہے۔