رسائی کے لنکس

جرمنی میں نئے قانون کی منظوری، پناہ کے متلاشی بیرون ملک رقم نہیں بھیج سکیں گے


برلن میں جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے اجلاس کا ایک منظر۔ وزیر داخلہ ننسی فیسر تقریر کر رہی ہیں۔ 12 اپریل 2024
برلن میں جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے اجلاس کا ایک منظر۔ وزیر داخلہ ننسی فیسر تقریر کر رہی ہیں۔ 12 اپریل 2024
  • جرمنی تارکین وطن کے لیے ایک پرکشش مقام ہے، جہاں انہیں نسبتاً آسانی سے روزگار مل جاتا ہے۔
  • پچھلے سال ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ تارکین وطن نے پناہ کی درخواستیں دائر کیں۔ زیادہ تر افراد کا تعلق یوکرین، شام، ترکی اور افغانستان سے تھا۔
  • تارکین وطن کی تعداد میں غیر معمولی اضافے نے جرمنی میں بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔
  • جرمنی کے نئے قانون کا مقصد تارکین وطن کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔

جرمنی اب غیر قانونی تارکین وطن کے لیے پرکشش نہیں رہے گا۔ جرمنی کی پارلیمنٹ نے جمعے کے روز ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت پناہ کی درخواست دینے والے تارکین وطن کی نقد رقم تک رسائی محدود ہو جائے گی اور وہ اپنے ملک رقم نہیں بھیج سکیں گے۔

اس قانون کے تحت سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو اپیل کا فیصلہ ہونے تک جرمنی میں رہنے اور محدود فوائد کے حصول تک رسائی کے لیے حکومت ایک کارڈ جاری کرے گی۔ اس کارڈ پر وہ مقررہ حد کے اندر رہتے ہوئے دکانوں سے اپنی بنیادی ضرورت کی چیزیں خرید سکیں گے اور اپنے بلوں اور دیگر سروسز کے معاوضے کی ادائیگی کر سکیں گے۔

اس کارڈ سے وہ محدود کیش بھی نکلوا سکیں گے لیکن وہ اپنے آبائی ملک میں، اپنے خاندان اور عزیزوں کو رقم نہیں بھیج سکیں گے۔

عہدے داروں کا خیال ہے جرمنی میں داخل ہونے والے زیادہ تر تارکین وطن کا مقصد اپنے خاندانوں کو رقوم بھیجنا ہوتا ہے۔اس پابندی سے ان غیر قانونی تارکن وطن کی حوصلہ شکنی ہو گی جو اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے مختلف راستوں سے جرمنی کا رخ کرتے ہیں۔

یورپی بلاک میں جرمنی کا شمار صف اول کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں روزگار کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ کم شرح پیدائش اور معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر جرمنی اپنی صنعتوں کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے ہر سال بیرونی ملکوں سے آنے والے کارکنوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

جرمنی کی آبادی 8 کروڑ سے زیادہ ہے جب کہ پیدائش کی شرح ایک ہزار افراد کے مقابلے میں 9 کے لگ بھگ بچے سالانہ ہے ۔ اس طرح یہ سطح ایک فی صد کے دسویں حصے سے بھی کم ہے۔

جرمنی میں 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کل آبادی کا تقریباً 28 فی صد حصہ تھے۔ 65 سال کو جرمنی میں ریٹائرمنٹ کی عمر سمجھا جاتا ہے۔

برلن کے قریب پولیس اہل کار غیرقانونی تارکن وطن کے ایک گروپ کو اپنی نگرانی میں لے جا رہے ہیں جو پولینڈ سے جنگل کے راستے پیدل جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔ 11 اکتوبر 2023
برلن کے قریب پولیس اہل کار غیرقانونی تارکن وطن کے ایک گروپ کو اپنی نگرانی میں لے جا رہے ہیں جو پولینڈ سے جنگل کے راستے پیدل جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔ 11 اکتوبر 2023

پیدائش کی کم شرح اور عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث جرمنی میں ہر سال ایسے افراد کی تعداد گھٹ رہی ہے جو کام کرنے کی عمر میں ہوتے ہیں۔ روزگار کی منڈی میں اس بڑھتے ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے جرمنی ہر سال بڑی تعداد میں ہنرمند کارکنوں کو ورک ویزے جاری کرتا ہے۔

جرمنی کی یہ تصویر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے ان نوجوانوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے جو روزگار کی تلاش میں ترقی یافتہ ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔ ان میں کشتیوں اور دیگر پر خطر راستوں سے غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے لوگ بھی شامل ہیں، جن کی ایک بڑی تعداد سمندر میں ڈوب کر اجنبی راستوں میں بھٹک کر مر کھپ جاتی ہے۔

یورپ پہنچنے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگ کسی نہ کسی طریقے سے جرمنی پہنچ جاتے ہیں اور چوری چھپے کام کر کے اپنی گزر بسر بھی کرتے ہیں اور اپنے خاندان والوں کو بھی رقم بھیجتے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ پناہ کی درخواستیں دائر کر دیتے ہیں جس کے بعد انہیں حکومت کی طرف سے کچھ سہولتیں مل جاتی ہیں۔

پچھلے سال جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دینے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور یہ تعداد ساڑھے تین لاکھ سے بڑھ گئی جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق یوکرین، شام، ترکی اور افغانستان سے تھا۔

فرانس کے شمالی شہر کیلے میں ریلوے لائن کے گرد غیر قانونی تارکین وطن کے عارضی خیمے۔ یہ افراد جرمنی جانا چاہتے تھے جنہیں روکنے کے لیے جرمنی کے فرانس کے ساتھ امیگریشن کا ایک معاہدہ کرنا پڑا۔ 22 جون 2023
فرانس کے شمالی شہر کیلے میں ریلوے لائن کے گرد غیر قانونی تارکین وطن کے عارضی خیمے۔ یہ افراد جرمنی جانا چاہتے تھے جنہیں روکنے کے لیے جرمنی کے فرانس کے ساتھ امیگریشن کا ایک معاہدہ کرنا پڑا۔ 22 جون 2023

تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نہ صرف روزگار ،رہائش اور صحت کے وسائل پر بوجھ پڑا ہے بلکہ سیکیورٹی سمیت کئی اور طرح کے مسائل بھی پیدا ہو گئے ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے جرمنی کی حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے تارکین وطن کی حوصلہ شکنی ہو اور ان کا ملک غیر ملکیوں کے لیے پرکشش نہ رہے۔

جمعے کے روز جرمن پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا قانون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز اور جرمنی کی 16 ریاستوں کے گورنروں نے نومبر سے تارکین وطن سے متعلق نئے نظام پر عمل درآمد کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ بل پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے بھاری اکثریت سے منظور کیا ہے۔

جنوری میں جرمنی کی پارلیمنٹ کے ایک اور قانون کی بھی منظوری دی تھی جس سے ان تارکین وطن کو ملک بدر کرنا آسان ہو گیا ہے جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں نامنظور ہو جاتی ہیں۔

اس قانون کے تحت حکام کو یہ فیصلہ کرنے کا بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یہ طے کر سکیں کہ ملک بدر ہونے والے افراد کتنی رقم اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔

(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG