جرمنی 16 برس سے اقتدار میں رہنے والی اپنی چانسلر اینگلا مرکل کو الوداع کہنے کے لیے تیاری کر رہا ہے جنہوں نے اپنے طویل دور اقتدار میں نہ صرف یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی باگ ڈور سنبھالی بلکہ یورپ اور عالمی میدان میں بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوایا۔
اینگلا مرکل جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر تھیں اور پہلی رہنما تھیں جو سابقہ مشرقی جرمنی میں پیدا ہوئیں۔
ان کا سیاسی سفر جرمنی کے 1990 میں اتحاد کے بعد شروع ہوا جب انہیں ان کے استاد چانسلر ہلمت کوہل نے عورتوں اور بچوں کے امور کی وزیر مقرر کیا۔
جرمن میڈیا نے انہیں ’’کوہل کی لڑکی‘‘ کا خطاب دیا لیکن جلد ہی وہ ان کے اثر سے باہر نکل آئیں اور 2000 میں کرسچن ڈیموکریٹس کی رہنما بن گئیں۔
انہوں نے 2005 کا انتخاب کم مارجن سے جیتا اور کرسچن ڈیموکریٹ اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں کے اتحاد سے چانسلر منتخب ہوئیں۔
ان کے اقتدار کے دوران انہیں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے پہلے 2008 کا عالمی معاشی بحران تھا۔
اس بحران کے دوران جہاں انہیں ’بحران کے دوران چانسلر‘ کا خطاب ملا۔ وہیں یورو زون کے قرضوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے یونان پر لگی سخت شرائط کی وجہ سے انہیں منفی جذبات کے ساتھ یاد کیا جاتا رہا۔
روس کی یوکرین میں مداخلت کے دوران انہوں نے روس کے ساتھ مذاکرات کا راستہ کھلا رکھا۔ انہوں نے پیوٹن کے ساتھ مذاکرات میں یوکرین، جرمنی اور فرانس کو شامل رکھا تاکہ جنگ ختم کی جا سکے۔
اینگلا مرکل کی بائیوگرافی کی مصنفہ ارسلا وائیڈن فیلڈ کے مطابق ایجنلا مرکل کا مذاکرات کا طریقہ، مذاکرات، مذاکرات اور مذاکرات ہے، چاہے وہ چین کے ساتھ ہو یا روس کے ساتھ ہو۔ ان کے بقول اینگلا مرکل مسلسل گفتگو کو جاری رکھتی ہیں۔ وہ مسلسل مذاکرات جاری رکھتی ہیں۔ وہ یورپ کی جانب سے مذاکرات میں آخری فرد کے طور پر کھڑی رہتی ہیں اور وہ تب تک ہار نہیں مانتی ہیں جب واقعی رات آ جائے۔ یہی انہوں نے ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بھی کیا۔
اینگلا مرکل کا سب سے بڑا چیلنج 2015 کا تارکین وطن کا بحران تھا۔ انہوں نے تب جرمنی کی سرحد تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے بند کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جرمنی میں شام کی جنگ سے فرار ہونے والے 10س لاکھ کے قریب مہاجرین داخل ہوئے۔ اس فیصلے کی وجہ سے داخلی طور پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ملک میں مضبوط ہوئیں۔لیکن مرکل اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اس مشکل وقت میں اپنا دوستانہ چہرہ دکھانے سے کترانا ہے تو پھر یہ میرا ملک نہیں ہے۔
چھ برس بعد آج مرکل کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
جرمن اخبار ’سوڈ ڈوئچے زائٹانگ‘ کے مطابق مرکل کا یقین تھا کہ لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں برتاؤ کرنا چاہیے۔ انہیں سرحدوں کے پار نہیں دھکیلنا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق مرکل کے اس فیصلے سے یورپ میں تقسیم کی بجائے اتحاد کی فضا بنی۔
آج جرمنی میں یہ خدشہ موجود ہے کہ بین الاقوامی میدان میں اینگلا مرکل کی قائدانہ صلاحیتوں کی جگہ کون لے سکتا ہے۔ مرکل کی کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی کے دیرینہ رکن پارلیمنٹ جورگن ہارڈٹ نے ایک بیان میں کہا کہ جرمن عوام کو مستقبل کے بارے میں پر اعتماد رہنا چاہیے۔
جورگن ہارڈٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بات لوگوں کے لیے واقعی مشکل ہوتی ہے کہ کون نیا امیدوار ہو سکتا ہے۔ مستقبل کے چانسلر کا 16 برس اقتدار میں رہنے والی اینگلا مرکل کے ساتھ تقابل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب 2005 میں کاروباری افراد سے اپنے مکالمے میں انہیں بتایا کہ جرمنی کی نئی چانسلر اینگلا مرکل ہوں گی تو وہ اس بات پر ہنس پڑے تھے۔ کیوں کہ انہیں یقین نہیں تھا کہ ایک خاتون چانسلر بن سکتی ہیں۔
ان کے مطابق آج کرسچن ڈیموکریٹس کی جانب سے چانسلر کے امیدوار آرمن لاشیٹ کے بارے میں جب لوگ سوال اٹھاتے ہیں تو وہ انہیں بھی یہی بتانا چاہیں گے۔
جرمنی، یورپ اور مغرب کے لیے اینگلا مرکل کا اقتدار چھوڑنا ایک سیاسی دور کا اختتام ہے۔