افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں طالبان کی گاڑیوں پر ہونے والے مبینہ تین مختلف دھماکوں میں کم از کم تین افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے ہیں۔
ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ہونے والے ان مبینہ حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔ البتہ شدت پسند گروہ 'داعش' مشرقی افغانستان میں موجود ہے۔ جو کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں یعنی طالبان کے شدید مخالف مانے جاتے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان حملوں میں طالبان کے عہدیدار ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں یا نہیں۔
جرمنی کی نیوز ایجنسی 'ڈی پی اے' کو ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان تین دھماکوں میں سے ایک دھماکے میں پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں طالبان جنگجو سوار تھے۔
ننگر ہار میں قائم ایک اسپتال کے حکام کے مطابق کم از کم دو افراد کی لاشیں اور 19 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔
ننگر ہار میں وزارتِ صحت کے ایک افسر نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ دھماکوں میں تین افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے۔ جب کہ مقامی میڈیا کے مطابق 19 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے بم دھماکے میں دو افراد زخمی ہوئے۔
پولیس حکام کے مطابق کابل میں ہونے والے بم دھماکے کا ہدف ابھی تک واضح نہیں ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان پچھلے ماہ 15 اگست کو سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ کر کے ملک کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور انہوں نے افغانستان میں امن قائم کرنے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کا دعوی کیا تھا۔
اس رپوررٹ میں معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور 'اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔